جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ فروری میں ہونے والے عام انتخابات ان کی پارٹی سے چوری کیے گئے اور انہوں نے اسے عوامی مینڈیٹ کی سب سے بڑی ڈکیتی قرار دیا۔

راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ انہیں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔

اگست میں جیل جانے کے بعد سے ان کی گفتگو پہلی بار کھلی عدالت میں سنی گئی تھی۔

انہوں نے کہا، ’میری پارٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔ 8 فروری کے انتخابات عوامی مینڈیٹ کی سب سے بڑی ڈکیتی تھی۔

الیکشن کمیشن نے انتخابات میں دھاندلی کی تردید کی ہے۔

کرکٹر سے سیاست داں بننے والے 71 سالہ عمران خان کو بدعنوانی کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ انکو درجنوں دیگر مقدمات کا بھی سامنا ہے۔

وہ اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا کہنا ہے کہ یہ مقدمات ان کی اقتدار میں واپسی کو روکنے کے لیے سیاسی محرکات پر مبنی ہیں۔

فروری میں ہونے والے انتخابات میں عمران خان کے حمایت یافتہ امیدواروں نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں لیکن وہ حکومت بنانے کے لیے درکار اکثریت سے محروم رہے۔ ان کے حریف شہباز شریف کئی دیگر جماعتوں کے ساتھ مخلوط حکومت میں وزیر اعظم بنے۔

عمران خان کو سپریم کورٹ نے ملک کے انسداد بدعنوانی کے قوانین میں ترامیم کے خلاف دائر درخواستوں پر پیش ہونے اور درخواست دینے کی اجازت دی تھی، جس پر ان کا دعویٰ ہے کہ بدعنوان سیاستدانوں کی حمایت کے لیے بنایا گیا تھا۔

تاہم عدالت نے کارروائی کو براہ راست نشر کرنے کی ان کی درخواست کو مسترد کردیا۔ کمرہ عدالت کے اندر روئٹرز کے ایک رپورٹر کے مطابق عدالت نے کہا کہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ نہیں ہے۔

عمران خان اس سے قبل صحافیوں کے ایک منتخب گروپ سے بات کرتے رہے ہیں جنہیں جیل کے اندر بند کمرے میں ہونے والے ان کے مقدمے کی کوریج کرنے کی اجازت ہے۔

ان کے ساتھی ان سے ملنے کے بعد ان کے پیغامات پہنچا رہے ہیں اور ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس فعال ہیں، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ انہیں کون چلا رہا ہے۔

سنہ 2022 میں پارلیمنٹ میں اعتماد کے ووٹ کے ذریعے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے انہیں متعدد مقدمات کا سامنا ہے، جن کے بارے میں ان کا الزام تھا کہ عدم اعتماد کو طاقتور فوج کی حمایت حاصل تھی۔ فوج ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

Comments

200 حروف