ایک خوش آئند تبدیلی میں یکم جولائی 2024 سے قدرتی گیس کی قیمتوں میں کمی متوقع ہے۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے جو اکثر سننے کو ملتی ہے۔ لیکن پچھلی دو نظر ثانیوں کی روشنی میں ریاستی ملکیتی 2 گیس ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ریونیو کی ضرورت موجودہ نرخوں سے کم طے کی گئی ہے۔ اوگرا کی جانب سے 897 ارب روپے کی ریونیو کی ضرورت 1.2 ٹریلین روپے کی درخواست کردہ رقم سے 29 فیصد کم ہے۔ موجودہ ٹیرف سے اوسط ٹیرف کی بنیاد پر ایس ایس جی سی اور ایس این جی پی ایل کے لیے بالترتیب 5 سے 2 فیصد کی حد میں یہ معمولی کمی ہو گی۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صارفین کی قیمتیں کچھ زمروں کے لیے تبدیل نہیں ہوں گی کیونکہ حکومت ایک سیکٹر سے دوسرے شعبے پر کراس سبسڈی کے بوجھ کو کم کرنے کے کیلئے اس کو موقع کے طور پر استعمال کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر پہلے تین سلیب میں پچھلے سال میں طے شدہ ٹیرف کے نفاذ اور خاطر خواہ نظرثانی کے بعد بھی ان پروٹکٹڈ صارفین کو کراس سبسڈی دی جاتی ہے۔ اسی طرح توانائی کے شعبے کیلئے موجودہ قیمت 1,050 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو بھی تقریباً 1,520 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کی اوسط قیمت سے کم ہے۔
اب تفصیلات کی طرف آتے ہیں۔ مسئلہ کہاں ہے۔ سیلز مکس ریونیو کی ضرورت کا ایک اہم عنصر ہے جس سے فرار یا احتراز بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔ بلاشبہ گریز یا احتراز کرنا تخمینہ لگانے کی مشق کا حصہ ہے لیکن یہ کس حدتک ہوتا ہے؟اس پر غور کریں۔ ایس این جی پی ایل کیلئے تعین، جیسا کہ اوگرا نے اجازت دے رکھی ہے، کیپٹیو پاور صنعتی استعمال کے لیے قدرتی گیس کی 42,177 بی بی ٹی یو فروخت کا تصور کیا گیا ہے۔ یہ مالی سال 24 کے تعین سے 267 فیصد زیادہ ہے اور مالی سال 23 کے حقیقی اعداد و شمار سے 9 گنا زیادہ ہے اور کیپٹیو پاور صارفین کی جانب سے مالی سال 22 کے اصل گیس کی کھپت سے دو گنا زیادہ ہے۔
یہ پریشان کن کیوں ہے؟ ایک یا دو سال پہلے کے واضح حیران کن اضافے کے علاوہ جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ریگولیٹر اور درخواست گزار حقیقت سے بالکل غافل نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت پاکستانی حکام نے تحریری وعدے کیے ہیں اور بار بار یقین دہانی کرائی ہے کہ کیپٹیو پاور کے استعمال کی مکمل حوصلہ شکنی کی جائے گی اور 2024 کے آخر تک درآمدی آر ایل این جی کے ٹیرف کے ذریعے اسے مکمل طور پر ناقابل عمل بنا دیا جائے گا۔
یہ اہم ہے کیونکہ پوری بنیاد کیپٹیو پاور جنریشن پر بنائی گئی ہے جس کی فروخت میں مقامی سیکٹر کے بعد اس کا دوسرا سب سے زیادہ حصہ ہے، ایسے وقت میں جب حکومت کی بیان کردہ پالیسی واضح طور پر کچھ اور بتا رہی ہے۔ یہ بتانے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے کہ اصل کھپت بہت مختلف ہو گی، کیونکہ آئی ایم ایف یقینی طور پر اس سے پیچھے نہیں ہٹے گا جسے وہ بنیادی پالیسی اصلاحات قرار دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گریز کا عمل شارٹ فال کا باعث بنے گا، کیونکہ زیادہ کھپت کا جھکاؤ مقامی اور بجلی کے شعبوں کے حق میں ہوگا جو اوسطاً قومی اوسط قیمت سے کم ادائیگی کرتے ہیں۔
یہ مسئلہ پاور سیکٹر کی جانب سے گیس کے بے ترتیب حصول کی وجہ سے مزید بڑھ جاتا ہے کیوں کہ آر ایل این جی پر مبنی پاور جنریشن میرٹ لسٹ سے نیچے جاتی ہے اور ایسا بالخصوص آف سیزن میں ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں گیس کا بہاؤ گھریلو صارفین کی طرف زیادہ ہوتا ہے کیوں کہ حکومت نے بین الاقوامی معاہدے کر رکھے ہوتے ہیں جس کی صورت انہیں بہر صورت کھیپ لینا یا ادائیگی کرنا ہوتی ہے جس کا مطلب ہے کہ توانائی کے شعبے یا عام صنعتوں سے مانگ کم ہونے کے باوجود بھی درآمدی گیس ہر حال میں ملک میں ہوگی جیسا کہ گزشتہ دو سال میں بھی ہوا ہے۔آر ایل این جی پر مبنی کھاد پلانٹس کی منتقلی کے نتیجے میں مزید آر ایل این جی کی سپلائی مقامی شعبے کی طرف موڑ دی گئی ہے۔
صنعتی کھپت کے حوالے سے ایس این جی پی ایل نے گزشتہ سال سے بلینڈڈ ریشو میں بہتری کی ہے جو بجلی اور کھاد کے شعبوں سے کم مانگ کے پیش نظر ایک مشکل مرحلہ ہوسکتا ہے۔ صنعتی کھپت میں 2.5 گنا اضافے کی وجہ سے معاشی بحالی پر مبنی درخواستوں کو ریگولیٹر نے منظور کر لیا ہے۔ بجلی کے شعبے کی جانب سے مطلوبہ طلب کے مطابق آر ایل این جی استعمال کرنے میں ناکامی ایک سنگین مسئلہ ہے جس کے نتیجے میں مقامی شعبے کی طرف بہاؤ بڑھتا ہے اور سسٹم پر دباؤ بھی بڑھتا ہے، جس سے نقصانات کے ساتھ دیگر متعلقہ اخراجات کے مالی اثرات ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر محصول کا تعین انتہائی غیر حقیقی مفروضوں پر مبنی ہے، اور ممکنہ طور پر مالی سال 25 میں مزید پریشانیوں کا باعث ہو سکتا ہے۔
Comments
Comments are closed.