تیل اور گیس کا شعبہ کچھ عرصے سے مشکلات کا شکار ہے۔ تیل و گیس کے شعبے کی کمزوری کا اندازہ غیر ملکی سرمایہ کاری سے بھی لگایا جا سکتا ہے ۔ سرمایہ کاری کے طور پر اس شعبے کی کشش گزشتہ ایک دہائی کے دوران غیر یقینی طور پر کم ہو ئی ہے ۔ پاکستان میں آنے والی مجموعی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں تسلسل رہا ہے ۔ تاہم مجموعی ایف ڈی آئی میں ای اینڈ پی سیکٹر کا حصہ غیر یقینی رہا ہے جو مالی سال 12-2015 کے درمیان اوسطا 34 فیصد سے کم ہوکر مالی سال 20 میں 12 فیصد اور مالی سال 23 میں 8 فیصد رہ گیا ہے۔

گزشتہ برسوں کے دوران تیل اور گیس کی پیداوار میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، جو بنیادی طور پر ذخائر میں کمی، چھوٹی دریافتوں، پرانے فیلڈز اور ریگولیٹری رکاوٹوں کے ساتھ مقامی اور غیر ملکی ای اینڈ پی کمپنیوں کے لئے عدم تسلسل کا شکار پالیسی سے متاثر ہوئی ہے۔ اس نے اس شعبے میں ایف ڈی آئی کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے۔انہیں چیلنجز کی وجہ سے گزشتہ برسوں میں کئی ایم این سیز ملک کے ای اینڈ پی سیکٹر سے باہر نکل چکے ہیں جن میں ای این آئی ، ایگزون، بی پی اور او ایم وی وغیرہ شامل ہیں۔

اپ سٹریم سیکٹر کی کمزوری کی جڑ کئی سالوں کے دوران گردشی قرضوں میں اضافہ ہے۔۔ یہ بتانا کہ تیل اور گیس کے شعبے کو مالیاتی بحران کا سامنا ہے، وصولیوں میں اضافہ کے ساتھ غلط نہیں ہوگا۔ نتیجتا اس شعبے میں تلاش اور پیشگوئی کی سرگرمیوں میں مشغول ہونے کی صلاحیت پر سمجھوتہ کیا گیا ۔ اگرچہ وقت کے ساتھ اس شعبے کی آپریشنل کارکردگی میں زبردست کمی آئی ہے ، لیکن وقتا فوقتا تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی نے تیل اور گیس کمپنیوں کے منافع کو بہتر حالت میں رکھا ہے۔

علاوہ ازیں سیکورٹی اور استحکام سرمایہ کاروں کے لیے ایک اور تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں جہاں کے پی اور بلوچستان میں امن و امان کی غیر مستحکم صورتحال بھی ان اعلیٰ امکانات والے علاقوں میں تلاش اور ڈرلنگ کی سرگرمیوں میں رکاوٹ ہے۔

حال ہی میں گیس نرخوں میں دو بار اضافے سے اس شعبے کو کچھ راحت ملی ہے ،جس سے ڈرلنگ کی سرگرمی میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم گردشی قرضوں کا مسئلہ شعبے کی صلاحیت کو مسلسل دبا رہا ہے۔ مزید برآں، پالیسی سازوں کو پالیسی تضادات اور ریگولیٹری رکاوٹوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے اور کمپنیوں کو بروقت غیر ملکی زرمبادلہ کے اجراء پر توجہ دینے سے انہیں مالی بحران سے نکلنے میں مدد ملے گی.

Comments

200 حروف