ادارہ برائے شماریات پاکستان (پی بی ایس) کے مطابق 23 مئی کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران 51 اشیائے ضروریہ پر مشتمل حساس قیمتوں کے انڈیکس (ایس پی آئی) میں 0.34 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جس میں 12 اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اور 18 میں کمی دیکھی گئی جبکہ سالانہ 21.31 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
ہفتہ وار کمی کی وجہ بنیادی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی ہے، خاص طور پر لہسن 7.87 فیصد، آٹا 4.66 فیصد، چکن 5.92 فیصد، پیاز 1.9 فیصد اور ایل پی جی 3.23 فیصد کم ہوئی ہے تاہم تازہ دودھ (0.06 فیصد)، بیف (0.49 فیصد)، مٹن (0.25 فیصد) اور دہی میں 0.11 فیصد اضافہ ہوا۔
23 مئی کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ، جس سے امکان ہے کہ ایس پی آئی میں کمی واقع ہو۔ تاہم، یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ چونکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو ہر پندرہ دن بعد مقرر کیا جاتا ہے ،اس لئے دوسرے ہفتے میں ان اہم مصنوعات کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے جس کا افراط زر کی شرح پر اچھا اثر پڑتا ہے۔
واضح رہے کہ 16 مئی 2024 سے حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر کمی کی منظوری دی تھی، پٹرول کی قیمت میں 15.39 روپے فی لیٹر اور ایچ ایس ڈی کی قیمت میں 7.88 روپے فی لیٹر کی کمی کردی تھی، جس کا قیمتوں پر بڑا منفی اثر پڑنا چاہیے تھا اور 16 مئی کو ختم ہونے والے ہفتے کے لیے ایس پی آئی میں 1.06 فیصد کی کمی واقع ہوئی، جس سے فارموں سے مارکیٹ تک لے جانے والی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی، خاص طور پر ٹماٹر (31.38 فیصد)، پیاز (21.84 فیصد)، لہسن (7.76 فیصد) کمی ریکارڈ کی گئی۔
ایندھن کی قیمتیں 60 روپے فی لیٹر کی پیٹرولیم لیوی سے مشروط ہیں اور یہ وفاقی حکومت کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے جو صوبوں کے ساتھ شیئر نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ قابل تقسیم پول کا حصہ نہیں ہے۔ چونکہ یہ لیوی سیلز ٹیکس موڈ میں عائد کی جاتی ہے، جو قابل تقسیم پول کا ایک جزو ہے، اس لیے لیوی کو دیگر ٹیکسوں کے تحت رکھنا وفاقی حکومت کی جانب سے پوری کلیکشن کو سنبھالنے کی دانستہ کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس کا بجٹ رواں سال کے لیے 869 ارب روپے رکھا گیا تھا۔
امید کی جاسکتی ہے کہ وفاقی حکومت 14 سال قبل 2010 کی 18 ویں آئینی ترمیم کے مطابق تمام تفویض شدہ شعبوں کی منتقلی پر غور کرے گی اور موجودہ اخراجات کو مزید کم کرے گی خاص طور پر سرکاری ملازمین کی تنخواہیں منجمد کرے گی (جو ٹیکس دہندگان کے خرچ پر ادا کی جانے والی پوری لیبر فورس کا تقریبا 7 فیصد ہے) اور تمام سرکاری خریداریوں کو دو سال کے لئے منجمد کر دے گی۔ اس بات کو یقینی بنائیگی کہ ملک نہ صرف جاری معاشی تعطل کا مقابلہ کرے بلکہ قرض دہندگان کے مقابلے میں بھی اپنا لیوریج بڑھائے تاکہ ان اقدامات کے اثرات کو کم سے کم کیا جاسکے جن سے نجی شعبے میں کام کرنے والوں کی آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے۔
سالانہ ایس پی آئی کے اعداد و شمار تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں کیونکہ گیس کے چارجز میں 570 فیصد اضافہ ہوا ہے اور 16 مئی کو ختم ہونے والے ہفتے میں سالانہ 21.22 فیصد اور 23 مئی کو ختم ہونے والے ہفتے میں 21.31 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے ملکی سطح پر اور جب بھی عالمی سطح پر قرضے لینے پر بھاری انحصار کیا گیا ہے، اس نے قرضوں پر سود کے چارجز میں اضافہ کرکے روپے کی قدر کو کم کیا ہے، جو موجودہ اخراجات کا بڑھتا ہوا حصہ ہے۔ ایک دہائی سے زائد عرصے سے حکومتی اخراجات میں کمی کی باتیں ہو رہی ہیں اور اس کے باوجود ملکی قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر آئی ایم ایف کے اس اصرار کے بعد کہ گزشتہ سال کے وسط سے ڈسکاؤنٹ ریٹ کو 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر رکھا جائے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بڑھتی ہوئی افراط زر کی ذمہ داری جزوی طور پر آئی ایم ایف پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ اس کو بنیاد معاشی منطق کے مطابق مکمل لاگت کی وصولی حاصل کرنا ہے، لیکن اس کی سب سے بڑی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ اس نے سیاسی طور پر چیلنجنگ اقدامات نہیں کیے تاکہ سخت فیصلے کرکے قرض دینے والوں سے فائدہ اٹھا جاسکے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments