غزہ کے دور دراز جنوبی شہر میں ایک پرہجوم کیمپ کو بمباری سے تباہ کرنے پر عالمی غم و غصے کے باوجود اسرائیلی ٹینک رفح کے قلب میں داخل ہوگئے ہیں۔ فلسطینی حکام کے مطابق کیمپ کو آگ لگنے سے اس میں 45 افراد شہید ہوئے تھے۔

ایک عینی شاہد نے بتایا کہ اسرائیلی ٹینک رفح شہر کے وسط میں العودہ چورنگی پر کھڑے تھے۔ ایک فلسطینی سیکورٹی ذرائع نے تصدیق کی کہ ٹینک رفح کے مرکز میں موجود تھے جہاں اسرائیلی فوجیوں نے اس ماہ کے شروع میں ایک متنازعہ حملہ کیا تھا۔

اتوار کی شام کیمپ پر بمباری ہونے والی بمباری، جس کے بارے میں غزہ کے طبی ماہرین کا کہناہے کہ بمباری اور جھلسنے کے سبب سیکڑوں فلسطینی زخمی ہوئے ہیں، کی عالمی رہنماؤں نے سخت مذمت کی تھی جبکہ اس پر بحث کیلئے شام سوا سات بجے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا۔

آتشزدگی کے ذریعے قتل عام، سوختہ لاشوں اور بچوں کو اسپتال لے جانے کے منظر نے اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوٹیرس کو یہ اعلان کرنے پر مجبور کیا کہ غزہ میں کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے اور یہ ہولناکی بند ہونا چاہیے۔

اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس حملے کو ”افسوسناک حادثہ“ قرار دیا لیکن ساتھ ہی اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ 7 اکتوبر کے حملے میں حماس کو تباہ کرنے اور تمام یرغمالیوں کو وطن واپس لانے کے لیے فوجی مہم کو جاری رکھیں گے۔

محصور غزہ پر راتوں رات مزید ہوائی حملوں اور گولہ باری کی بارش ہوئی، جس میں رفح کا تل السلطان علاقہ بھی شامل ہے جہاں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی انروا کے دفتر کے قریب پناہ گزینوں کا کیمپ بھی آگ کی لپیٹ میں آگیا۔

ایک 30 سالہ فلسطینی رہائشی فتن جودہ نے کہا کہ صورتحال بہت خطرناک ہے، ہم ساری رات نہیں سوئے، ہر طرف سے اندھا دھند بمباری ہورہی تھی جس میں توپ خانے کی گولہ باری اور فضائی حملوں اور جنگی طیاروں سے شیلنگ بھی جاری تھی۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم نے سب کو دوبارہ بھاگتے دیکھا، اب ہم بھی یہاں سے المواسی جائیں گے کیونکہ ہمیں اپنی جانوں کا خوف ہے۔ انہوں نے قریبی ساحلی علاقے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جہاں اسرائیل نے ”انسانی بنیادوں پر محفوظ زون“ کا اعلان کیا ہے۔

انروا کا کہناہے کہ بین الاقوامی انتباہات کے باوجود مئی کے اوائل میں اسرائیل کی جانب سے شہر پر حملہ شروع کرنے کے بعد سے دس لاکھ شہری رفح سے دیگر علاقوں کی طرف منتقل ہوچکے ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایجنسی نے ایکس پر پوسٹ کیا کہ بمباری کےسبب خوراک اور پانی کی کمی، کچرے کے ڈھیر اور رہائش کے نامناسب حالات کی وجہ سے کوئی بھی علاقہ محفوظ نہیں ہے۔

انروا کے مطابق ہرگزرتے دن کے ساتھ امداد اور تحفظ فراہم کرنا تقریباً ناممکن ہورہا ہے۔

فلسطینی ریاست

غزہ کی اب تک کی سب سے خونریز جنگ کے سات ماہ سے زائد کے عرصے میں اسرائیل کو اب تک کی سخت عالمی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ اسے ہالینڈ میں قائم دو بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمات کا بھی سامنا ہے۔

منگل کو ایک تاریخی سیاسی اقدام میں آئرلینڈ، ناروے اور اسپین نے باضابطہ طور پر فلسطین کی ریاست کو تسلیم کر لیا۔ یہ قدم اب تک اقوام متحدہ کے 140 سے زائد اراکین لیکن چند مغربی حکومتوں نے اٹھایا ہے۔

ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے قومی ٹیلی ویژن پر کہا کہ فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنا نہ صرف تاریخی انصاف کا معاملہ ہے بلکہ اگر ہم سب کو امن حاصل کرنا ہے تو یہ ایک لازمی ضرورت بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ اس حل کی طرف بڑھنے کا واحد راستہ ہے جسے ہم سب ایک پرامن مستقبل کے حصول کا واحد ممکنہ راستہ تسلیم کرتے ہیں یعنی ایسی فلسطینی ریاست جو پڑوسی اسرائیل کے ساتھ پر امن طور اور سلامتی کے ساتھ رہے۔

اسرائیل نے اعلان کردہ اقدام کو غزہ پر حکمرانی کرنے والی حماس تحریک کے لیے ”انعام“ قرار دیا ہے اور اس سے قبل میڈرڈ، ڈبلن اور اوسلو سے اپنے سفارتی سفیروں کو واپس بلا لیا تھا۔

وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے منگل کو ایک قدم مزید آگے بڑھ کر ایکس پر اپنی پوسٹس میں سانچیز کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سانچیز یہودیوں کی نسل کشی پر اکسانے والوں کے ساتھ ہیں۔

کاٹز نے ہسپانوی وزیر یولینڈا ڈیاز کی جانب سے آزادی فلسطین کا نعرہ لگائے جانے کے بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای ، حماس غزہ کے سربراہ یحییٰ سنوار اور ان کے درمیان اک مساوی لکیر کھینچی یعنی انہیں ایران اور حماس کا ساتھی قرار دیا۔ ہسپانوی وزیر نے“دریا سے سمندر تک“ آزاد فلسطین کے مطالبے کو آگے بڑھایا۔

ہسپانوی وزیر خارجہ جوز مینوئل الباریس نے کہا کہ تینوں حکومتیں اسرائیل کے جارحانہ ردعمل کا مربوط ردعمل جاری کریں گی جو ان کے بقول ”پرسکون لیکن مضبوط“ ہوگا۔

’زمین پر جہنم‘

غزہ جنگ 7 اکتوبر کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے سے شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں 1,170 سے زائد اسرائیلی ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

حملے کے دوران فلسطینی گروپ نے 252 یہودیوں کو یرغمال بھی بنایا، جن میں سے 121 غزہ میں زندہ ہیں جبکہ دیگر ہلاک ہوچکے ہیں۔

حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کی جوابی کارروائی میں غزہ میں کم از کم 36,096 افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں بیشتر عام شہری ہیں۔

اسرائیلی فوج نے کہا کہ اتوار کی رات پناہ گزین کیمپ پر حملے، جس میں درجنوں افراد شہید ہوئے، میں حماس کے دو سینئر ارکان کو نشانہ بنایا گیا۔

اسرائیل کی فوج نے کہا کہ اس کے طیارے نے ”حماس کے ایک کمپاؤنڈ کو نشانہ بنایا“ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی گروپ کے سینئر عہدیدار یاسین رابعہ اور خالد نگر مارے گئے۔

یہ حملہ حماس کی جانب سے تل ابیب کے علاقے پر راکٹوں کی بارش کیے جانے کے چند گھنٹے بعد کیا گیا، اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے بیشتر میزائل تباہ کردیے تھے۔

غزہ میں بڑے پیمانے پر شہریوں کی اموات کے نتیجے میں فلسطینیوں اور کئی عرب ممالک نے اسے ”قتل عام“ قرار دیتے ہوئے مذمت کی ایک لہر کو جنم دیا ہے۔

اونرا کے سربراہ فلپ لازارینی نے پیر کو کہا کہ گزشتہ رات کی تصاویر اس بات کی گواہی ہیں کہ کس طرح زمین پر رفح جہنم میں تبدیل ہو گیا ہے۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے کہا کہ وہ ”خوف زدہ“ ہیں اور فرانسیسی صدر عمانویل میکرون نے کہا کہ وہ ”غصے میں“ ہیں۔

امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیل کو شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن احتیاط برتنی چاہیے۔

Comments

200 حروف