این ایف سی ایوارڈ : وفاق کا گردشی قرضوں کا بوجھ صوبوں پر منتقل کرنے پر غور
- نئے فارمولے پراتفاق رائے کا امکان کم ، صوبے اپنے حصے پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ، عائشہ غوث پاشا
وفاقی حکومت صوبوں کی طرف سے این ایف سی ایوارڈ کے تحت اپنے حصے پر نظر ثانی سے انکار کے بعد قرضوں پرسُود کی ادائیگی اور بجلی کے گردشی قرضوں کو صوبوں تک منتقل کرنے کے آپشن پر غور کرسکتی ہے۔
وزارت خزانہ کے حکام کے ساتھ بات چیت کے پس منظر میں انکشاف ہوا کہ 2010 کے این ایف سی ایوارڈ کے تحت تقسیم شدہ پول میں صوبوں کا حصہ بڑھا کر 57.5 فیصد کرنے کے بعد اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ صوبوں کو قرضوں پرسُود کی ادائیگی اور بجلی کے گردشی قرضوں کو وفاقی حکومت کے ساتھ شیئر کرنے کے لئے کہا جانا چاہیے۔
وفاقی حکومت کے پاس قابل تقسیم پول میں سے صرف 42.5 فیصد بچا ہے جبکہ بیرونی قرضوں پر سُود کی ادائیگیوں اور توانائی کے شعبے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی برقرار رکھنا بھی ممکن نہیں رہا۔
رابطہ کرنے پر سابق وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے روزنامہ بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ نئے فارمولے پر اتفاق رائے کے لیے تمام صوبوں اور وفاقی حکومت کے درمیان اتفاق کی ضرورت ہوتی ہے جس کا امکان بہت کم دکھائی دیتا ہے کیونکہ صوبے اپنے حصے پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس بات سے واقف ہیں کہ 2010 کے این ایف سی ایوارڈ میں وفاقی حکومت کا شیئر پریشان کن حد تک کم ہے، ایسے میں 18ویں آئینی ترمیم کے تحت منقولہ وزارتوں اور ڈویژنوں کے ذریعے اس سے نمٹا جا سکتا ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ وفاقی حکومت کو این ایف سی میں صوبوں کے شیئر پر نظرِثانی کرنے کے بجائے حکومتی مشینری کی ڈاؤن سائزنگ، پنشن اصلاحات اور قرضوں کے بہتر نظم و نسق کے ذریعے اپنے اخراجات کا گراف نیچے لانے پر توجہ دینی چاہیے۔
ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کا کہنا تھا کہ وہ مالیاتی عدمِ ارتکاز کی حامی ہیں اور مالیاتی معاملات میں ذمہ داری ضلع کی سطح تک منتقل کی جانی چاہیے جس کا تصور اٹھارویں ترمیم میں دیا گیا ہے۔ اب تک ایسا نہیں ہوسکا۔ اس کے لیے غیر معمولی سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments
Comments are closed.