عالمی عدالت انصاف کا تاریخی فیصلہ، اسرائیل کو رفح میں جارحیت فوری روکنے کا حکم

اسرائیلی فوج ایسی دیگر کارروائیاں بھی روکے جو غزہ میں انسانی تباہی کا باعث بن سکتی ہیں، فیصلہ
شائع May 24, 2024

اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت نے جمعہ کو اسرائیل کو حکم دیا ہے کہ وہ رفح میں اپنی فوجی جارحیت فوری طور پر روک دے۔ اس تاریخی فیصلے سے گزشتہ 7 ماہ سے جاری غزہ جنگ کے دوران اسرائیل پر بڑھتے ہوئے عالمی دباؤ میں اضافے کا امکان ہے۔

عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو رفح میں فوری طور پر اپنا فوجی آپریشن اور ایسی تمام کارروائیاں روکنے کا حکم بھی دیا جو غزہ میں فلسطینیوں کیلئے جزوی یا مکمل جسمانی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔

عدالت نے اسرائیل کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ غزہ کے لیے رفح کراسنگ کو انسانی امداد کی ”بلا رکاوٹ“ فراہمی کے لیے کھلا رکھے۔

آئی سی جے کے فیصلے قانونی طور پر عملدرآمد کے پابند ہیں لیکن عدالت کے پاس ان کو نافذ کرنے کا کوئی ٹھوس ذریعہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اس نے روس کو یوکرین پر حملہ روکنے کا حکم دیا تھا جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

اسرائیل نے عدالت کے سامنے استدلال کیا تھا کہ فوجی سرگرمیاں روکنے کا حکم حماس کو بے لگام کردے گا اور اس کی فوج کو گروپ کے 7 اکتوبر کے حملے میں یرغمال بنائے گئے افراد کو بچانے سے روک دے گا۔

بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کی طرف سے پیر کو اسرائیل اور حماس کے سرکردہ رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری طلب کرنے کے بعد عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

پراسیکیوٹر کریم خان نے الزام لگایا کہ سینئر اسرائیلی رہنما بشمول وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور حماس کے اعلیٰ عہدیدار7 اکتوبر کے حملے اور غزہ جنگ کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہیں۔

’غیر اخلاقی استحصال‘

جنوبی افریقہ نے گزشتہ سال آئی سی جے میں مقدمہ دائر کیا تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا غزہ میں اسرائیلی جارحیت نے 1948 کے اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے تاہم اسرائیل نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔

26 جنوری کو دنیا بھر میں شہ سرخیوں کا سبب بننے والے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے میں بھی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا کہ کہ وہ غزہ میں اپنی فوجی کارروائی کے دوران نسل کشی کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے۔

اس کے بعد سے جنوبی افریقہ عدالت میں یہ دلیل دے رہا ہے کہ غزہ کی سنگین انسانی صورتحال عدالت کو مزید تازہ ہنگامی اقدامات جاری کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

اس کے بعد عدالت نے مارچ میں ایسا ہی کرتے ہوئے نئے اقدامات کا حکم دیتے ہوئے اسرائیل کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ”بغیر روک ٹوک فراہمی“ کو یقینی بنانے پر مجبور کیا۔

گزشتہ ہفتے عوامی سماعتوں میں جنوبی افریقہ کے سفیر ووسیموزی میڈونسیلا نے الزام لگایا کہ اسرائیل کی نسل کشی تیزی سے جاری ہے اور اب یہ ایک نئے اور ہولناک مرحلے پر پہنچ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ تازہ درخواست رفح میں ابھرتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے دائر کی گئی تھی لیکن غزہ میں اسرائیل کے نسل کشی کے حملوں میں گزشتہ چند دنوں سے شدت آئی ہے جس پر اس عدالت کی توجہ بھی دلائی گئی ہے۔

جنوبی افریقہ نے استدلال کیا کہ غزہ میں بحران کو کم کرنے کے لیے انسانی امداد کو فعال کرنے کا واحد طریقہ اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کو مکمل طور پر روکنا ہے۔

عدالت کو اسرائیل کی جانب سے نسل کشی کیخلاف جنوبی افریقہ کے مقدمے پر فیصلہ سنانے میں سالوں کا وقت نہیں تو کئی ماہ درکار ہوں گے تاہم وہ اپنے فیصلے پر غور کرتے ہوئے فوری اقدامات کا حکم دے سکتی ہے۔

اسرائیل نے جواب دیا کہ جنوبی افریقہ کا معاملہ ایک ”پاکیزہ کنونشن کا استحصال“ ہے اور اس نے عدالت میں جو تصویر پیش کی تھی وہ حقائق اور حالات کے برخلاف ہے۔

اسرائیل کے وکیل گیلاد نوم نے سماعتوں میں کہا کہ یہ نسل کشی کے گھناؤنے الزام کا مذاق اڑائے جانے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی چیز کو بار بار نسل کشی کہنا اسے نسل کشی نہیں بناتا۔ جھوٹ کو دہرانے سے وہ سچ نہیں ہو جاتا۔

اسرائیل نے یہ بھی کہا کہ وہ غزہ کی پٹی میں شہریوں کی تکالیف سے ”انتہائی حدتک آگاہ“ ہے اور اس نے انسانی امداد کی روانی کو بڑھانے کے لیے ”وسیع کوششیں“ کی ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے اس ہفتے کہا تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ نسل کشی نہیں ہے۔

تعطل کا شکار مذاکرات

اسرائیل نے جمعرات کو کہا کہ وہ حماس کے ساتھ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر معطل مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے کیونکہ نیتن یاہو کو یرغمالیوں کی آزادی سے متعلق بڑھتے ہوئے مقامی دباؤ کا سامنا ہے۔

مذاکرات کے معاملے سے باخبر قریبی ذرائع کے مطاق امریکی انٹیلی جنس کے سربراہ بل برنز پیرس میں اسرائیلی نمائندوں سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کیلئے ممکنہ طور پر ملاقات کریں گی۔ اس ماہ کے شروع میں قاہرہ اور دوحہ میں ہونے والے پچھلے مذاکرات میں قطر اور مصر نے حماس کے ثالث کے طور پر شرکت کی تھی۔

فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غزہ پر اسرائیلی فوج کی جارحیت کے نتیجے میں اب تک کم ازکم 35 ہزار 800 سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں بیشتر عام شہری ہیں۔

Comments

200 حروف