حکام نے جمعرات کو بتایا کہ ہے ہیٹ ویو کی لہر کے پیش نظر ملک میں نصف سے زائد طلبہ کیلئے اسکولوں میں تعلمی سرگرمیاں معطل کردی گئی ہیں کیوں کہ حکومت گرمی کی شدید لہرکے اثرات کم کرنے کیلئے ہنگامی اقدامات کررہی ہے۔

پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں حکومت نے گرمی کی شدید لہر کے پیش نظر ایک ہفتہ قبل ہی موسم گرما کی تعطیلات کا حکم دے دیا ہے۔

محکمہ تعلیم پنجاب کے ترجمان نے جلد تعطیلات کے حکم کی تصدیق کی ہے۔

پاکستان کے محکمہ موسمیات نے تین ہیٹ ویوز کی پیش گوئی کی ہے جن میں سے ایک جاری ہے جبکہ دوسری جون کے اوائل اور تیسری اواخر میں شروع ہوگی۔

پاکستان میں ہیٹ ویو سے نمٹنے کے لیے 1,000 سے زیادہ امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔

ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی نے بتایا کہ پنجاب میں اس وقت درجہ حرارت معمول سے تا 8 ڈگری سیلسیس زیادہ ہے، صوبائی دارالحکومت لاہور میں ہفتے کے آخر میں 46 ڈگری سیلسیس (111 ڈگری فارن ہائیٹ) رہا۔

کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیات نے جمعرات کو اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ عالمی درجہ حرارت موسم کے مزاج میں اچانک تبدیلی کا باعث بن رہی ہے۔

گرمی بڑھنے کے سبب پنکھوں اور ایئر کنڈیشن کے استعمال کے میں اضافے سے ملک کے متعدد علاقوں کو 15 گھنٹے تک بجلی کی بندش کا سامنا ہے جس کی وجہ اسکولوں میں بچے گرمی کی شدت سے نڈھال ہوکر میزوں پر گر پڑتے ہیں۔

این جی او سیو دی چلڈرن نے کہا ہے کہ پنجاب کے اسکولوں میں جن 260 ملین بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں معطل ہوئی ہیں وہ پاکستان میں پری پرائمری، پرائمری اور سیکنڈری طلباء کا 52 فیصد ہیں۔

کنٹری ڈائریکٹر محمد خرم گوندل نے کہا کہ شدید گرمی میں طویل عرصے تک رہنے سے بچوں کی سیکھنے اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور اس سے ان کی تعلیم خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اضافی گرمی بچوں کے لیے بھی ممکنہ طور پر مہلک یا خطرناک ہے ۔

بچوں کی دیکھ بال سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں 460 ملین یا تین چوتھائی سے زیادہ بچے ہر سال کم از کم 83 دن تک 35 ڈگری سیلیس ( 95 ڈگری فارن ہائیٹ) کا شکار رہتے ہیں۔

یونیسف نے انتباہ کیا ہے کہ شدید گرمی سے بچوں کو پانی کی کمی، جسم کا درجہ حرارت بڑھنے، دل کے دھڑکن تیزہونے، اکڑن اور کوما جیسے خطرناک طبی مسائل کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

پاکستان عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے ایک فیصد سے بھی کم اخراج کا ذمہ دار ہے۔

تاہم 24 کروڑ آبادی پرمشتمل پاکستانی قوم ان انتہائی موسمی واقعات کے خطرے سے دوچار ممالک میں سرفہرست ہے جسے سائنسدانوں نے موسمیاتی تبدیلی سے جوڑا ہے۔

2022 میں مون سون کی غیر معمولی بارشوں سے پاکستان کا ایک تہائی علاقہ ڈوب گیا تھا جس سے لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے تھے۔

پاکستان گزشتہ ماہ بھی معمول سے زیادہ بارشوں سے متاثر ہوا۔ 1961 کے بعد سے اب تک یہ ایسا اپریل ریکارڈ کیا گیاہے جس میں اتنی زیادہ بارش ہوئی ہو، گزشتہ ماہ ہونے والی موسلا دھار اور طوفانی بارش اور اس کے نتیجے میں حادثات کے سبب 144 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ رواں موسم گرما میں مزید سیلاب کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

اس سے قبل موسم سرما میں بھی لاہور کے طابعلموں کی تدریسی سرگرمیاں بھی معطل کی گئی تھیں کیوں کہ صوبائی دارالحکومت کے شدید دھند کی لپیٹ میں رہنے کے سبب اسکول بند کردیے گئے تھے۔

Comments

200 حروف