اس وقت پاکستان کو معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اگرچہ موجودہ حکومت ان مسائل سے نمٹنے کے لیے مثبت اقدامات پر عمل پیرا ہے لیکن جب تک ہم آئی ایم ایف کی گرفت سے آزاد نہیں ہو جاتے ہماری قومی ترقی اور خوشحالی مشکلات کا شکار رہے گی۔

معاشی استحکام اور خوشحالی کے حصول کے لیے ہمیں زراعت کو ترجیح دینا ہوگی اور جدید زرعی تحقیق کی جانب فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ بدقسمتی سے تحقیق پر توجہ کا فقدان ہے اور ایسا خاص طور پر کپاس کے شعبے میں ہے۔

1990 کی دہائی تک بھارت کپاس کی پیداوار میں پاکستان سے پیچھے تھا۔ تاہم آج بھارت نہ صرف پاکستان کو پیچھے چھوڑ گیا ہے بلکہ 2023-24 کے سیزن میں روئی کی 34.7 ملین گانٹھوں کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں بھی سرفہرست ہے اور یہ دنیا کی کل پیداوار کا 25 فیصد ہے۔

بھارت کپاس کا سب سے بڑا پیدا کنندہ بن گیا ہے جب کہ پاکستان کی پیداوار بمشکل 8 سے 9 ملین گانٹھیں رہ گئی ہیں ۔ اس اعداد و شمار کے ساتھ پاکستان عالمی پیداوار میں صرف 4 سے 5 فیصد کے حصے کے ساتھ کپاس پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک بن گیا ہے۔ بھارت کے پاس 2030 تک کپاس کی پیداوار کو 40 ملین گانٹھوں تک بڑھانے کے ٹھوس منصوبے ہیں، جبکہ پاکستان کو کپاس کی کاشت اور پیداوار کو متاثر کرنے والے عوامل کی وجہ سے غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔

انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (آئی آر ایس اے) کی رپورٹ میں اس سال پانی کی 35 فیصد کمی کی نشاندہی کی گئی ہے جس کی وجہ سے محکمہ پنجاب نے کپاس کی کاشت کا ہدف 5 ملین ایکڑ سے کم کر کے 4 ملین ایکڑ فٹ کر دیا ہے۔ مزید برآں کپاس کی کاشت والے علاقوں میں گنے اور دھان کی فصلوں کے لیے وقف رقبہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ بدقسمتی سے حکومت نے ابھی تک کپاس کی امدادی قیمت کا اعلان نہیں کیا۔

اس کے برعکس بھارت نے 31 فصلوں کی امدادی قیمتیں مقرر کی ہیں جب کہ ہم نے گندم یا گنے کے سوا کسی بھی فصل کی امدادی قیمت مقرر نہیں کی۔ آج پاکستان کو آئی ایم ایف پر انحصار سے بچانے کی صلاحیت کے حامل شعبے کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور ٹیکسٹائل انڈسٹری ہیں۔

تاہم بدقسمتی سے اس وقت حکومت کی ان شعبوں پر توجہ ناکافی ہے۔ ہمیں حالات کا از سر نو جائزہ لینے اور اپنے مستقبل کے لیے صحیح راستہ طے کرنے کی ضرورت ہے۔ فی الحال بھارت اپنی کل جی ڈی پی کا 0.4 فیصد تحقیق اور ترقی کے لیے مختص کرتا ہے جب کہ پاکستان اس میں سے نصف سے بھی کم خرچ کرتا ہے۔ تحقیق میں سرمایہ کاری کیے بغیر ہم مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔

پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی (پی سی سی سی) جو وزارت قومی غذائی تحفظ اور تحقیق کے تحت کپاس کی سب سے بڑی تحقیقی تنظیم ہے آج ایک سنگین مالی اور انتظامی بحران کا شکار ہے۔ یہ ادارہ پاکستان کی آزادی کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کی رہنمائی میں قائم کیا گیا تھا۔

کاٹن کمیٹی 1948 میں کاٹن ٹیکس ایکٹ 1923 کے تحت تشکیل دی گئی تھی۔ اس وقت صورتحال تشویشناک ہے۔ 1100 کے قریب زرعی سائنسدانوں اور دیگر ملازمین کو گزشتہ 22 ماہ سے تنخواہیں اور پنشن نہیں ملی لیکن ان کی حالت زار کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

کاٹن کمیٹی کے مالی وسائل 50 روپے فی گانٹھ ٹیکس پر منحصر ہیں، جو 2012 میں مقرر کیا گیا تھا۔ تاہم 2024 میں بھی ٹیکس کی شرح وہی ہے۔ اب اسے 150 سے 200 روپے فی گانٹھ تک بڑھانا ضروری ہے۔

بدقسمتی سے 80 فیصد ٹیکسٹائل انڈسٹری نے 2016 سے کپاس پر 50 روپے فی گانٹھ کا ٹیکس دینا بند کر دیا ہے۔ حکومت پاکستان کو اس معاملے پر فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ وہ نادہندہ ٹیکسٹائل ملوں کو سیل کریں اور ٹیکس چوروں کا احتساب کریں۔

اس وقت ٹیکسٹائل انڈسٹری کاٹن ٹیکس کی مد میں کاٹن کمیٹی کی 3 ارب روپے سے زائد کی مقروض ہے۔

حکومت کو ٹیکسٹائل انڈسٹری کی درآمدات اور برآمدات کو کاٹن ٹیکس سے مشروط کرنا چاہیے اور ملوں کو اس وقت تک این او سی (نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ) جاری نہیں کرنا چاہیے جب تک وہ کاٹن ٹیکس کی ادائیگی نہ کریں۔

کاٹن کمیٹی نے پاکستان کی تاریخ میں کپاس کی تین بڑی فصلیں پیش کیں۔ گزشتہ بمپر فصل سال 2014-15 میں کپاس کی 14 ملین گانٹھوں سے زیادہ کاشت کی گئی۔ تاہم جب سے ٹیکسٹائل انڈسٹری نے کاٹن ٹیکس کی ادائیگی بند کردی ہے پاکستان میں کپاس کی تحقیق شدید متاثر ہوئی ہے جس کے نتیجے میں کپاس کی پیداوار میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔

آج ہم 14 ملین گانٹھوں سے بمشکل 8 سے 9 ملین گانٹھوں پر آ گئے ہیں۔ کاٹن کمیٹی کو درپیش مشکل حالات کے باوجود اس کے ذیلی ادارے سینٹرل کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ملتان نے گزشتہ سال 2023 میں ایک باوقار کارنامہ انجام دیا۔ کپاس کی قسم سائیٹو 547 نیشنل کوآرڈینیٹڈ ورائٹل ٹرائل (این سی وی ٹی) میں پنجاب بھر میں سرکاری اور نجی دونوں شعبوں کی اقسام میں پہلے نمبر پر ہے۔

فی الحال ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری سالانہ 16 ملین گانٹھیں روئی استعمال کرتی ہے جس کے لیے ہمیں ہر سال اربوں ڈالر مالیت کی روئی درآمد کرنی پڑتی ہے۔ حکومت کپاس کی پیداوار میں کمی کی وجوہات کی تحقیقات کے لیے فوری طور پر قومی کمیشن قائم کرے۔

پی سی سی سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو جوابدہ ہونا چاہیے اور متعلقہ انتظامیہ سے بھی جواب لیا جائے۔ یہ کمیشن اسٹیک ہولڈرز کا کردار کھل کر ظاہر کرے گا اور مستقبل میں کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے بہترین حکمت عملیوں کی پیش گوئی کرنے میں مدد کرے گا۔

دنیا بھر میں بہت سے ممالک حکومت اور نجی دونوں شعبوں کے تعاون سے کپاس کی تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ان تحقیقی اداروں کو کپاس کی پیداوار اور تجارت سے حاصل ہونے والے محصولات یا ٹیکسوں کے ذریعے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے۔

تاہم دیگر ممالک کے برعکس پاکستان میں ہم ایک ایسی صورت حال دیکھتے ہیں جہاں کپاس کے محققین تنخواہوں اور پنشن سے محروم ہیں جو کہ شرمناک اور مایوس کن ہے۔ بھارت میں، سنٹرل انسٹی ٹیوٹ فار کاٹن ریسرچ (سی آئی سی آر) کو بھارتی حکومت اور کاٹن کارپوریشن آف انڈیا کی مکمل حمایت حاصل ہے جو کپاس کی پیداوار پر ٹیکس عائد کرتی ہے۔

اسی طرح ویتنام کا ویت نام کاٹن اینڈ سلک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (وی سی ایس آر آئی) حکومت اور ویتنام کاٹن ایسوسی ایشن سے فنڈنگ حاصل کرتا ہے جو کپاس کی درآمد پر ٹیکس لگاتی ہے۔ آسٹریلیا کی کامن ویلتھ سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ آرگنائزیشن (سی ایس آئی آر او) کو حکومت اور کاٹن ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کارپوریشن (سی آر ڈی سی) کی مدد حاصل ہے جو کپاس کی پیداوار پر ٹیکس کے ذریعے فنڈز فراہم کرتی ہے۔

ریاست ہائے متحدہ میں ایگریکلچرل ریسرچ سروس ( اے آر ایس) کو حکومت کی طرف سے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے اور اسے کاٹن بورڈ سے تعاون حاصل ہوتا ہے جو کپاس کی پیداوار پر ٹیکس لگاتا ہے۔ اسی طرح چین کی چائنیز اکیڈمی آف ایگریکلچرل سائنسز (سی اے اے ایس) کو حکومت اور چائنا کاٹن ایسوسی ایشن کے ذریعے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے جو کپاس کی پیداوار پر ٹیکس عائد کرتی ہے۔

یہ مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ کس طرح مختلف ممالک فنڈنگ میکانزم کے ذریعے کپاس کی تحقیق اور ترقی کو فروغ دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے کاٹن کمیٹی، پاکستان کا سب سے بڑا ریسرچ ادارہ، تنخواہوں، پنشن یا آپریشنل اخراجات کے لیے حکومتی تعاون سے محروم ہے۔ ان مقاصد کے لیے ایک روپیہ بھی مختص نہیں کیا گیا۔

بھارتی حکومت موجودہ دور میں زرعی ترقی کیلئے کپاس کے کاشتکاروں کو متعدد سبسڈی اور مراعات فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے اور آبپاشی کے جدید نظاموں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے، پانی تک رسائی کو یقینی بنایا ہے۔ اعلیٰ معیار کی پیداوار دینے والے کپاس کے بیج جدید کاشتکاری کی مشینری کے ساتھ آسانی سے دستیاب ہیں۔

کپاس کی کاشت میں تحقیق اور ترقی کو ترجیح دی جاتی ہے اور بجلی سستی ہے۔ بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویات کی قیمتیں مناسب ہیں۔ اچھی منڈی تک رسائی، سازگار حکومتی پالیسیاں، اور متنوع آب و ہوا اور جغرافیہ کپاس کی ترقی میں معاون ہے۔

نیشنل فوڈ سیکیورٹی مشن اور کاٹن مشن جیسے حکومتی اقدامات کسانوں کو بہتر طریقے اپنانے اور پیداوار کو بہتر بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ مزید برآں، تحقیق اور ترقی میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری ترقی اور کارکردگی کو بڑھاتی ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

Comments are closed.