افغانستان میں فائرنگ سے 3 ہسپانوی سیاحوں سمیت قتل ہونے والے 6 افراد کی لاشیں متعدد زخمیوں کے ساتھ کابل منتقل کردی گئی ہیں۔ قتل ہونے والوں میں 3 افغان شہری بھی شامل ہیں۔ گروپ کو افغانستان میں ایک بازار کا دورہ کرنے کے دوران گولیاں ماری گئیں۔ یہ بات طالبان حکومت کی جانب سے ہفتے کو بتائی گئی ہے۔

جمعے کے روز دارالحکومت کابل سے تقریباً 180 کلومیٹر (110 میل) دور وسطی افغانستان کے پہاڑی شہر بامیان کے بازار سے گزرتے ہوئے اس گروپ پر فائرنگ کی گئی۔

افغان وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین نے اے ایف پی کوبتایا کہ تمام لاشوں کو کابل منتقل کر دیا گیا ہے اور وہ فرانزک ڈیپارٹمنٹ میں ہیں اور زخمی بھی کابل میں ہیں، ہلاک اور زخمیوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 8زخمیوں میں، جن میں سے چار غیر ملکی ہیں، ایک معمر غیرملکی خاتون کی حالت تشویشناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ مارے گئے افراد میں 2 افغان شہری اور ایک طالبان اہلکار شامل ہے۔

ایک سفارتی ذریعے نے اے ایف پی کو بتایا کہ غیر ملکی شہری 13 افراد کے ایک منظم دورے کا حصہ تھے، تمام افراد کو زخمیوں کے ہمراہ راتوں رات سڑک کے ذریعے کابل لے جایا گیا، کیونکہ خراب موسم کی وجہ سے ہوائی سفر ممکن نہیں تھا۔

زخمی غیر ملکی

ہسپانوی حکومت نے جمعہ کو اعلان کیا کہ مرنے والوں میں تین ہسپانوی سیاح شامل ہیں جبکہ ایک ہسپانوی زخمی ہوا۔

وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ افغانستان میں ہسپانوی شہریوں کے قتل کی خبر سے شدید افسردہ ہوں۔

وزیر خارجہ جوز مینوئل الباریس نے ٹی وی پر بات کرتے ہوئے بتایاکہ لاشیں اتوار تک اسپین پہنچ جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ ایک زخمی کی کابل میں پہلے ہی سرجری ہو چکی ہے۔

کابل میں ہسپانوی سفارت خانے کو 2021 میں طالبان کے دوبارہ بر سر اقتدار آنےکے بعد دیگر مشنزکے ساتھ خالی کردیا گیا تھا۔

ہسپانوی حکام دارالحکومت میں یورپی یونین کے ایک وفد کے ساتھ رابطے میں ہے۔

الباریس نے کہا کہ وہ اس وقت تک خود اس معاملے کو دیکھیں گے جب تک تمام لاشیں واپس نہیں بھیج دی جاتیں اور آخری ہسپانوی کابل سے نکل جاتا ہے۔

بامیان کے اسپتال ذرائع کے مطابق زخمیوں کا تعلق ناروے، آسٹریلیا، لتھوانیا اور سپین سے ہے۔

افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ ان پر حملہ اس وقت کیا گیا جب وہ ایک بازار میں گھوم رہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ فورسز نے سات مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے ایک زخمی ہے، تفتیش ابھی جاری ہے حکومت اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔

اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ فائرنگ کرنے والے ملزمان کی تعداد کتنی تھی۔

یورپی یونین نے اس حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے کہا کہ اسے بامیان میں ہونے والے مہلک دہشت گرد حملے سے گہرا صدمہ ہے اور اس پر خوف طاری ہے۔ مشن کا کہناہے کہ وہ اس واقعے کے بعد مدد فراہم کر رہا ہے۔

سیاحت کا نیا شعبہ

طالبان حکومت کو ابھی تک کسی بھی ملک نے سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔

تاہم اس نے سیاحت کے نئے شعبے کی حمایت کی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں 5,000 سے زائد غیر ملکی سیاح افغانستان آئے تھے۔

مغربی ممالک اغوا، حملوں کی وارننگ دیتے ہوئے اپنے شہریوں اور سیاحوں کو چھٹیاں گزارنے کیلئے افغانستان کا سفر نہ کرنےکا انتباہ دیتے ہیں۔

سیکورٹی خدشات کے ساتھ ساتھ افغانستان میں سڑکوں کا بنیادی ڈھانچہ محدود ہے اور صحت کا شعبہ بھی مستحکم نہیں۔

متعدد غیر ملکی سیاحتی کمپنیاں افغانستان کے لیے پیکج ٹورز پیش کرتی ہیں، جن میں اکثر ہرات، مزار شریف اور بامیان جیسے شہروں کی جھلکیوں کے دورے شامل ہیں۔

بامیان افغانستان کا سب سے بڑا سیاحتی مقام ہے جو فیروزی جھیلوں اور حیرت انگیز پہاڑوں کے لیے معروف ہے۔

یہ کسی زمانے میں بدھا کے دیوہیکل مجسموں کا گھر تھا جنہیں طالبان نے 2001 میں اپنے سابقہ دور حکومت میں اڑا دیا تھا۔

طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان میں بم دھماکوں اور خودکش حملوں کی تعداد میں ڈرامائی کمی آئی ہے اور غیر ملکیوں پر مہلک حملے شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں۔

تاہم اسلامک اسٹیٹ گروپ سمیت متعدد مسلح گروپ اب بھی خطرہ ہیں۔

Comments

200 حروف