تکنیکی طور پراعلیٰ مالی فوائد والے زمروں یا درجات میں سمجھداری سےسرمایہ کرنے کیلئے دبئی پراپرٹی مارکیٹ ایک بہترین مثال ہے۔ یہ فری مارکیٹ کیپٹلزم کا نچوڑہے۔ درحقیقت دبئی کے نام نہاد لیکس میں ”بے نقاب“ ہونے والے زیادہ تر لوگوں نے واضح کیا ہے کہ انہوں نے مکمل طور پر قانونی سرمایہ کاری کی، جس کا باقاعدہ اعلان کیا گیا اور یہ معاملہ ان کیلئے ختم ہوجائے گا۔

اگربیان کردہ سرمایہ کاری ظاہر نہ کی جائے، منی ٹریل مشکوک ہو اور سرمایہ کاروں کی آمدن سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو مسائل خود بخود کھڑے ہوجاتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ امارات میں غیر ملکی شہریوں کی جانب سے خریدی گئی املاک کی کل تعداد اور مالیت کے اعتبار سے پاکستانی دوسرے نمبر پر ہیں۔ چونکہ ان میں سے بہت ساری خریداریاں ریٹائرڈ بیوروکریٹس، فوجی افسران اور کچھ دوسرے لوگوں نے کی ہیں تاہم ان کی بیان کردہ آمدنی اس قدر نہیں کہ وہ دبئی مارکیٹ میں اس سے جائیدادیں خرید سکیں۔ بیشتر عام پاکستانی ایف بی آر (فیڈرل بورڈ آف ریونیو) سے توقع کر رہے ہیں وہ آنے والے ہفتوں میں بہت زیادہ مصروف رہے گی۔

یہ بات کسی بھی صورت نہ بھولنا پائے کہ یہ انکشافات ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب ملک اور اس کے بیشتر شہری خوفناک معاشی خواب سے دوچارہیں۔ تاریخ کی بدترین مہنگائی مہنگائی بیروزگاری، حکومت کے پاس زرمبادلہ ختم ہونے کے سبب آئی ایم ایف کی اختیاری اور مروجہ پالیسیوں کے سبب معیشت کی یرغمالی نے پچھلے چند سالوں میں لاکھوں پاکستانیوں کو خط غربت سے نیچے دھکیل دیا ہے۔

یہ سب اس وقت ہورہا تھا جب (2020-22) ان کے بہت سے ہم وطن دنیا کی سب سے زیادہ منافع بخش مالیاتی منڈیوں میں سے ایک میں لاکھوں ڈالر کی جائیدادیں کرائے پر لینے اور خرید رہے تھے اور ہم وطنوں کے زخموں پر نمک چھڑک رہے تھے۔بہت زیادہ لوگوں کی آمدن اور سرمایہ کاری کے درمیان حیران کن تضادات ہیں جو لیکس میں سامنے آئے ہیں، کیوں کہ کوئی بہت سنجیدہ سرکاری تحقیقات نہیں ہو رہی ہیں۔

بہر حال ایف بی آر کے پاس جمع کرنے کے لیے ڈیٹا کا ایک خزانہ موجود ہے۔ بہت سے لوگوں کو بجا طور پر شبہ ہے کہ دبئی رئیل اسٹیٹ میں رکھے ہوئے پاکستانی پیسے اگرسارے نہیں تو کچھ حرام طریقے سے کمائے گئے اور پاکستان سے چوری کیے گئے ہیں۔

اس سے پہلے دو حکومتوں نے اس کالے دھن میں سے کچھ کو ایمنسٹی اسکیموں کے ذریعے واپس لانے کی کوشش کی ہے حالانکہ دونوں میں سے کوئی بھی اسکیم زیادہ کامیاب نہیں ہوئی اور جب کہ بہت سے لوگ اس وقت دونوں حکومتوں کے اقدام سے اختلاف کیا۔ اس وقت ”لٹیروں اور غبن کرنے والوں“ کو کالا دھن سفید کرنے کی اجازت دینے کے عمل کو انتہائی غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے ان کیخلاف سخت تحقیقات اور سزادینے کے عوامی مطالبات بھی سامنے آئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کو یہ معاملہ انتہائی سنجیدگی سے لینا پڑے گا۔ تاہم معاملات اس وقت مزید سنگین ہوجائیں گے جب اسلامی جمہوریہ میں طاقت کے مراکز کے قریب کچھ مقدس گائیوں سے نمٹنے کا وقت آئے گا۔

جب تحقیقات اور شفافیت کے بلند و بانگ دعوؤں کو سخت امتحان میں ڈالا جائے گا تو اس وقت حالات کچھ اور ہوں گے۔ متنازع عام انتخابات کے بعد سے حکومت کو عوام کی نظروں میں اپنی کم ساکھ اور قانونی حیثیت کا بخوبی ادارک ہے۔ تاہم اسے یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اسے جو کرنا ہے خود کرنا ہوگا۔

Comments

200 حروف