اپنے اختیار میں موجود قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان میں صنعتیں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تیزی سے سولر انرجی پر منتقل ہورہی ہیں اور اب مزید 2 لسٹڈ کمپنیوں سٹی فارما اور سینتھیٹک پروڈکٹس انٹرپرائز لمیٹڈ نے قابل تجدید توانائی استعمال کرنے کے منصوبوں کا اعلان کردیا۔

بدھ کو بڑی دوا ساز کمپنیوں میں سے ایک سٹی فارما نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کو ایک نوٹس میں اپنے اسٹیک ہولڈرز کو مطلع کیا کہ کمپنی توانائی کے روایتی ذرائع سے شمسی توانائی (سولر انرجی) کی طرف منتقلی کا ارادہ رکھتی ہے۔

سٹی فارما نے ایک بیان میں کہا کہ کاربن کا اخراج کم کرنے اور متبادل صاف توانائی کے ذرائع اختیار کرنے کے اپنے مسلسل عزم کے تحت ہم نے سولر انرجی کو اپنی سرگرمیوں کلیئے بطور ایندھن استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کمپنی نے بتایا کہ شمسی توانائی پر منتقلی کا عمل مرحلہ وار ہوگا تاکہ سرگرمیاں بھی بلا تعطل جاری رہیں۔

نوٹس میں کہا گیا کہ ہم اپنی مخصوص ضروریات کے مطابق جدید ترین سولر پینلز اور انفراسٹرکچر کو ڈیزائن اور انسٹال کرنے کے لیے شمسی توانائی فراہم کرنے والوں اور ماہرین کے ساتھ شراکت کر رہے ہیں۔

نوٹس کے مطابق شمسی توانائی کو اپنانے کا نہ صرف ماحولیاتی بلکہ معاشی طور پر بھی فائدہ ہوتا ہے۔ شمسی توانائی روایتی توانائی کے ذرائع کی نسبت بچت فراہم کرتی ہے اور ہم 100 ملین روپے سے زائد کی سالانہ بچت کی توقع کرتے ہیں۔

سینتھیٹک پروڈکٹس انٹرپرائز لمیٹڈ (ایس پی ایل) نے اسٹاک ایکسچینج کو ایک الگ نوٹس میں مطلع کیا کہ اس نے 1.3 میگاواٹ سے زائد پیدوار کے حامل سولر پینل کامیابی سے نصب کرلیے ہیں۔

پلاسٹک آٹو پارٹس اور اشیائے خور و نوش کی پیکنگ کا سامان تیار کرنے والی کمپنی نے کہا کہ ہمیں اپنے ماحولیاتی، سماجی، اور انتظامی حوالے سے اقدام سے متعلق ایک اہم سنگ میل کا اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے۔

بیان کے مطابق ایس پی ایل نے 1.3 میگاواٹ سے زیادہ سولر انرجی کے منصوبے کو کامیابی کے ساتھ نصب کیا ہے جو ہمارے پہلے نصب کردہ 1.25 میگاواٹ گرین انرجی کی تکمیل کرتا ہے۔ اس توسیع سے کلین، گرین انرجی اور قابل تجدید توانائی کے ذریعے کل شمسی توانائی کی صلاحیت ہماری سالانہ بجلی کی ضروریات کا تقریباً 20 ہوگئی ہے۔

پاکستان توانائی کے مسائل کو حل کرنے اور روایتی فوسل فیول پر انحصار کم کرنے سے متعلق اپنی سولر انرجی کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔

اس صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے کئی منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔

مثال کے طور پر بہاولپور میں قائداعظم سولر پارک جو کہ دنیا کے سب سے بڑے سولر پاور پلانٹس میں سے ایک ہے چین کے تعاون سے تیار کیا گیا ہے جس نے پاکستان کی شمسی توانائی کی صلاحیت میں سینکڑوں میگاواٹ کا اضافہ کیا ہے۔

گزشتہ ماہ ملک کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل ملوں میں سے ایک گل احمد ٹیکسٹائل ملز لمیٹڈ نے اعلان کیا تھا کہ وہ 17.1 میگاواٹ کا روف ٹاپ سولر پلانٹ لگائے گی۔

دریں اثنا ملک میں کئی سیمنٹ بنانے والی فرموں نے بھی شمسی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کا سہارا لیا ہے۔

گزشتہ سال اگست میں لکی سیمنٹ، پاکستان کے سب سے بڑے سیمنٹ مینوفیکچررز میں سے ایک، نے کراچی میں واقع اپنے 25 میگاواٹ کیپٹیو سولر پاور پلانٹ کی کامیاب تنصیب کا اعلان کیا۔

اسی طرح ڈی جی خان سیمنٹ کمپنی لمیٹڈ (ڈی جی کے سی) نے گزشتہ سال مارچ میں خیرپور میں اپنی سائٹ پر 7 میگاواٹ کا آن گرڈ سولر پاور پلانٹ کامیابی سے نصب کیا۔

یہ اقدامات ایسے وقت میں کیے جارہے ہیں جب صنعتی اور تجارتی بجلی کے نرخوں میں پچھلے دو سالوں میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے۔

توانائی کی بلند قیمتوں کے نتیجے میں گزشتہ سال پورے پاکستان میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے جبکہ زیادہ قیمتوں کے سبب اس کی کھپت میں بھی کمی واقع ہوئی جس کے بعد پالیسی سازوں نے شعبے کے استحکام کیلئے سرجوڑ لیے تھے۔

پاکستان نے بجلی کی صلاحیت میں اضافے کے لیے سخت پالیسی اپنائی تاہم کئی سالوں سے سست اقتصادی ترقی، بجلی کی چوری، اور ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورکس میں کم سرمایہ کاری کا مطلب یہ ہے کہ بلوں کی وصولی مساوی نہیں ہوئی۔

مہنگائی میں ہوشربا اضافے کے سبب ریکارڈ بلند شرح سود رکھے جانے سے توانائی کی طلب میں مزید کمی آئی ہے، جس سے حکومت کو’کیچ 22’ کی صورتحال کا سامنا ہے۔

3 بلین ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) کے اختتام پر اپنی سٹاف رپورٹ میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے توانائی کے شعبے کی عملداری کو بحال کرنے کے لیے اصلاحات پر بھی زور دیا۔

تاہم حکومت شمسی توانائی کی طرف منتقلی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے توانائی کے قابل تجدید ذرائع کی واپسی کی شرح کو کم کرنے کے لیے بھی کوشاں ہے جس کے بارے میں بزنس ریکارڈر نے پہلے ہی اطلاع دی تھی۔

Comments

200 حروف