لکشمی نارائن بھارت میں بجلی دیکھنے والے ابتدائی لوگوں میں سے ایک ہیں۔ 2020 میں انجینئر نے بھارت کے بھوپال شہر میں اپنی چھت پر سولر پینل لگائے، اپنے ملک کی زمین کو گرم کرنے والے فوسل فیول کے خاتمے میں مدد کرنے کی خواہش کی وجہ سے اب وہ کلین انرجی (آلودگی سے پاک توانائی) کے علمبردار بن گئے۔
60 سالہ نارائن نے کہا کہ میں قابل تجدید توانائی کی اہمیت سمجھتاہوں اور اور سوچتا ہوں کہ ہر کسی کو اسے اپنانا چاہیئے۔ ان کے اس عمل نے بہت سے لوگوں کو بھارت کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت میں ایسا کرنے کی ترغیب دی ہے۔
اپریل میں بھارت کے ملک گیر انتخابات کیلئے ووٹنگ شروع ہونے سے قبل ایک نئی سرکاری اسکیم منظر عام پر آئی جس کا مقصد 2030 تک قابل تجدید توانائی کو تین گنا کرنے کے قومی عزم کے حصے کے طور پر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی چھتوں پر سولر پینل لگانے کی ترغیب دینا ہے۔
فروری میں شروع کیے گئے نئے پروگرام، جو ایک کروڑ مکانات کی گرڈ سے منسلک چھتوں پر سولر پینل لگانے کیلئے 75 ارب روپے (9 ارب ڈالر) سبسڈی فراہم کرتا ہے، کے تحت لوگ سورج کی روشنی سے اپنی بجلی کے بلزم کم کرسکیں گے اور پیسے کمانے کیلئے گرڈ کو اضافی بجلی بھی فروخت کرسکیں گے۔
اس سے گھروں میں 30 گیگا واٹ ( جی ڈبلیو) شمسی توانائی پیدا ہونے کی توقع ہے جس کے نتیجے میں چھتوں کے نظام کی 25 سالہ زندگی میں 720 ملین ٹن سی او 2 کے برابر زمین سے حرارت کم ہوگی۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپریل میں ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا تھا کہ میں 3چیزیں چاہتا ہوں، ہر گھر کے بجلی کا بل صفر ہونا چاہیے، ہمیں اضافی بجلی بیچ کر پیسہ کمانا چاہیے اور میں ہندوستان کو توانائی کے شعبے میں خود کفیل بنانا چاہتا ہوں کیونکہ ہم الیکٹرک گاڑیوں کے دور میں داخل ہورہے ہیں۔
اس عمل کو، جو پہلے پیچیدہ اور بکھرا ہوا تھا، ہموار ایپلی کیشنز اور تنصیبات کو آسان بنانے کے لیے ون اسٹاپ آن لائن پورٹل کی تخلیق کے ساتھ آسان بنایا گیا ہے۔
سبسڈی براہ راست لوگوں کے بینک کھاتوں میں جمع کی جاتی ہے۔
تھنک ٹینک ایمبر کی ایک رپورٹ میں 8 مئی کو بتایا گیا کہ بھارت ، 2023 میں جاپان کو پیچھے چھوڑ کر تیسرا سب سے بڑا شمسی توانائی پیدا کرنے والا ملک بن گیا، شمسی توانائی میں عالمی ترقی کا 5.9 فیصد فراہم کرتا ہے۔
تاہم ایمبر نے واضح کیا کہ شمسی اور دیگر کم کاربن ذرائع ابھی اتنی تیزی سے نہیں بڑھ رہے ہیں کہ بھارت کی بڑھتی ہوئی بجلی کی طلب کو پورا کیا جا سکے۔
نئے روف ٹاپ سولر پروگرام کا مقصد اس ترقی کو فروغ دینا ہے لیکن نارائن کا تجربہ ایک محتاط کہانی پیش کرتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ نیا آن لائن پورٹل انتظامی پریشانیوں کے بہت سے جوابات فراہم کرے گا جو اس عمل کو خراب کرتے تھے تاہم ان کا کہنا ہے کہ میرے تجربے میں سب سے بڑا چیلنج بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں، یا ڈسکامز کو بورڈ میں شامل کرنا ہے۔
دہلی کے ایک تھنک ٹینک سنٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ (سی ایس ای) کے دسمبر 2023 کے ایک مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ ڈسکام کو قومی گرڈ تک چھتوں کے شمسی نظاموں کے لیے بغیر کسی رکاوٹ کے رسائی اور کنیکٹیویٹی فراہم کرنا تھی لیکن کمپنیوں کے کاروباری مفادات کو مد نظر رکھت ہوئے کبھی کبھی یہ براہ راست تصادم ہوتا ہے۔
نارائن نے کہا کہ اگرچہ اس نے اپنے 6 کلو واٹ سولر سسٹم کے ذریعے تین سالوں کے دوران بجلی کے بلوں میں 250,000 روپے (2,996 ڈالر) تک کی بچت کی، گرڈ کو اضافی بجلی بیچنا قرضوں میں ڈوبے ہوئے ڈسکامز کے غیر موثر شراکت داروں کے لیے پریشانی کا باعث ثابت ہوا۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنی مجھ سے ہر یونٹ کے لیے 8 روپے وصول کرتی ہے جو میں گرڈ سے استعمال کرتا ہوں لیکن گرڈ کو اضافی بجلی فراہم کرنے کے بدلے میں وہ مجھے 1.5 روپے فی یونٹ ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ کیسا انصاف ہے کہ ڈسٹری بیوشن کمپنی نے پینل لگانے کے بعد ماہانہ بل میں 500 روپے کا فکسڈ چارج شامل کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ وہ کم از کم رقم ہے جو ہم آپ سے وصول کریں گے چاہے آپ کا بل صفر ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب انہوں نے نئے ٹیرف کی وجہ پوچھی تو انہیں کوئی جواب نہیں ملا۔
تقسیم کے چیلنجز، مہارت کی کمی
شمسی توانائی کے شعبے کو فروغ دے کر بجلی کے بلوں میں کمی مودی کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کا ایک اہم انتخابی وعدہ تھا اور یہ قابل تجدید ذرائع کو فروغ دینے کے لیے بھارت کے طویل مدتی عزم کی عکاسی کرتا ہے۔
2015 میں ہندوستان نے 2022 تک چھتوں پر 40 گیگا واٹ بجلی پیدا کرنے کیلئے سولر پینل لگانے کا وعدہ کیا تھا تاہم اس پر پیشرفت سست رہی ہے۔
2023 کے آخر تک مودی سرکار صرف 11 گیگا واٹ کے سولر پینل لگا سکی ہے جس میں 3 گیگا واٹ کے پینل گھروں اور باقی کمرشل یا صںعتی املاک میں لگائے گئے۔
تاہم اب اس حقیقی عزم پر نظر ثانی کی گئی ہے اور 2026 تک چھتوں پر 100 گیگا واٹ کے سولر پینل لگائے جائیں گے جس میں سے 40 گیگا واٹ بجلی صرف رہائشی شعبے سے آئے گی۔
توانائی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی سولر مہم کو ڈسکامز کی آمدنی میں کمی، سولر پینلز بنانے، انسٹال کرنے اور سروس کرنے کے لیے ہنر مند کارکنوں کی کمی اور غیر معیاری مصنوعات کے پھیلاؤ کی وجہ سے رکاوٹ ہے۔
دانش علی، جنہوں نے شمالی بھارت کے لکھنؤ میں اپنی چھت پر 4 کلو واٹ کا سولر سسٹم نصب کیا ہے، نے کہا کہ ایک اور مسئلہ اس حقیقت سے پیدا ہوا کہ گرڈ سے منسلک سولر سسٹم بندش کے دوران بجلی نہیں دے سکتے جب تک کہ ان کے پاس چلانے کے لیے الگ بیٹری نہ ہو۔
50 سالہ دانش نے کہا کہ ان علاقوں میں جہاں بجلی کی طویل بند ہے ہے گرڈ سے منسلک نظام کام نہیں کریں گے کیونکہ وہ بجلی کا کوئی بیک اپ فراہم نہیں کرتے ہیں۔
علی کو ہفتے میں کئی بار دو گھنٹے تک بجلی کی بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
Comments
Comments are closed.