دنیا بھر میں موبائل نیٹ ورک آپریٹرز کے مفادات کی نمائندگی کرنے والی بین الاقوامی تنظیم جی ایس ایم ایسوسی ایشن (جی ایس ایم اے) نے 30 اپریل 2024 کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے نان فائلرز کی موبائل سمز کو بلاک کرنے کیلئے جاری کردہ انکم ٹیکس جنرل آرڈر (آئی ٹی جی او) پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس حوالے سے وزیر مملکت برائے آٹی شازہ فاطمہ خواجہ کو لکھے گئے خط میں ایسوسی ایشن نے ایف بی آر پر زور دیا کہ وہ ٹیکس وصولی کو بڑھانے کے لیے متبادل حکمت عملی تلاش کرے اور اس بات کو یقینی بنائے تمام شہریوں کے لیے موبائل سروس بلاتعطل جاری ہے۔ خط کی کاپی بزنس ریکارڈ کے پاس موجود ہے۔

اس سے قبل ایف بی آر نے انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرنے والے 506,671 نان فائلرز کی فہرست جاری کی تھی جن کے موبائل فون سمز کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور تمام ٹیلی کام آپریٹرز فوری طور پر بلاک کر دیں گے۔

ایف بی آر کے مطابق انکم ٹیکس جنرل آرڈر ان افراد کی سمز بلاک کرنے کے لیے جاری کیا گیا تھا جو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی دفعات کے تحت ٹیکس سال 2023 کے لیے انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کے ذمہ دار ہیں اور فعال ٹیکس دہندگان کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ .

حکم نامے کے تحت مذکورہ افراد کے حوالے سے موبائل سمز اس وقت تک بلاک رہیں گی جب تک متعلقہ شخص پر دائرہ اختیار رکھنے والے ایف بی آر یا کمشنر ان لینڈ ریونیو کی جانب سے بحال نہیں کیا جاتا۔

اس پیش رفت کے بعد سیلولر موبائل آپریٹرز (سی ایم اوز) نے چند روز قبل جاری کیے گئے وزارت آئی ٹی کو لکھے گئے اپنے خط میں تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا کہ ایف بی آر کا نان فائلرز کی سمز بلاک کرنے کا فیصلہ بے جا عجلت میں تھا اور اس سے ٹیلی کام صارفین پر منفی اثر پڑے گا۔

جی ایس ایم اے نے جمعرات کو اپنے خط میں، جو کہ وزارت خزانہ کو بھیجا گیا تھا، اس خدشے کا اظہار کیا کہ انکم ٹیکس جنرل آرڈر شہریوں اور کاروباری اداروں کو متاثر کرے گا اور ممکنہ طور پر ڈیجیٹل ترقی میں پاکستان کی پیشرفت میں رکاوٹ بنے گا اور عالمی معیارات کے حوالے سے علاقائی ممالک سے بھی پیچھے رہے گا۔

خط میں کہا گیا ہے کہ انکم ٹیکس جنرل آرڈر جیسے اقدامات کے غیر ارادی نتائج ہو سکتے ہیں جس سے خاص طور پر آبادی کے کمزور طبقات متاثرہوں گے، یہ بالخصوص ایف بی آر کے ڈیجیٹیلائزشن اور ڈیجیٹل پاکستان کے وژن سے مطابقت نہیں رکھتا۔

جی ایس ایم اے نے کہا کہ وہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے ردعمل کو تسلیم کرتا ہے کیوں کہ اس نے آرڈر لاگو کرنے کے ممکنہ منفی نتائج پر زور دیا ہے۔

خطے میں کہا گیا کہ شہریوں کے حقوق، ذریعہ معاش، اور سماجی معیار برقرار رکھنے کیلئے اہم معلومات پر منفی اثرات مرتب ہونا اور بالخصوص صنفی امتیاز پر سم کارڈ کی رجسٹریشن اہم خدشات میں شامل ہیں کیوں کہ صرف 27 فیصد خواتین ہی رجسٹرڈ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کی حامل ہیں۔

جی ایس ایم نے خط میں اس بات پر روشنی ڈالی کہ انکم ٹیکس جنرل آرڈر کا نفاذ ممکنہ سبسکرائبرز ، موبائل ڈیوائسز صارفین، خاص طور پر خاندان میں بچوں اور خواتین کے درمیان رابطے محدود کرسکتا ہے جس سے انفرادی فلاح و بہبود اور ترقی متاثر ہوگی۔

عالمی موبائل نیٹ ورک باڈی نے غیر ملکی سرمایہ کاری کے اعتماد میں کمی اور ڈیجیٹل تبدیلی کی کوششوں کے منصفانہ ہونے سے متعلق خدشات کی بھی نشاندہی کی۔

خط میں یہ بھی کہا گیا کہ سم بلاک کرنے سے بینکنگ، ای کامرس، ترسیلات زر، مالی مدد، اور موبائل کنیکٹیویٹی کے ذریعے کی جانے والی ای ہیلتھ سروسز میں خلل پڑ سکتا ہے۔

جی ایس ایم نے موبائل نیٹ ورک آپریٹرز (ایم این او ایس) سے بات چیت کے سلسلہ میں کچھ ضابطے کے خدشات موجود ہونے کا اعتراف کیا ہے جو حکومتی توجہ اس جانب راغب کررہے ہیں۔

جی ایس ایم اے نے کہا کہ موبائل سمز کو بلاک کرنے سے ممکنہ طور پر اہم خدمات میں خلل پڑ سکتا ہے اور ان لوگوں کو درپیش چیلنجز میں اضافہ ہو سکتا ہے جو اپنی روزمرہ کی ضروریات کے لیے موبائل کنیکٹیویٹی پر انحصار کرتے ہیں۔

خطے میں مزید کہا گیا ہے یہ غیر متناسب طور پر پسماندہ کمیونٹیز کو متاثر کر سکتا ہے جنہیں پہلے ہی ٹیکس کی تعمیل میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا ہے۔

جی ایس ایم نے خط میں ٹیکس جمع کرنے والے وفاقی ادارے پر زور دیا کہ ”تعزیتی اقدامات“ کرنے کے بجائے وہ ٹیکس کی وصولی کو بڑھانے کے لیے متبادل حکمت عملی تلاش کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام شہریوں کے لیے موبائل سروسز تک رسائی بلا تعطل برقرار رہے۔

جی ایس ایم اے کا خیال ہے کہ ٹیکس کے حصوصل میں رضاکارانہ شرکت اور اقتصادی شمولیت کو فروغ دینے کیلئے ایک متوازن نقطہ نظر اختیار کرنا حکومت اور پاکستان کے شہریوں دونوں کے لیے بہتر نتائج برآمد کرے گا۔

Comments

200 حروف