مارکٹس

پی ایس او کی قرض کے بدلے پبلک سیکٹر کمپنیوں میں حصص کی تجویز

  • سب کچھ مسابقتی بولی کے ذریعے کیا جائے گا اور ہم حصہ لیں گے ، منیجنگ ڈائریکٹر
شائع May 9, 2024

پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ پبلک سیکٹر انرجی کمپنیوں کے حصص حاصل کرنے اور قومی ائر لائن جیسی کمپنیوں کے بڑھتے قرضوں کو پورا کرنے کے منصوبے پر بات چیت کررہے ہیں ۔

پاکستان کے توانائی شعبے میں غیر حل شدہ قرضوں کے انبار کو روکنا اور بالآخر اسے حل کرنا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی اولین تشویش ہے، جس کے ساتھ اسلام آباد رواں ماہ طویل مدتی قرضوں کے نئے معاہدے کے لیے بات چیت شروع کررہا ہے۔

پی ایس او کے منیجنگ ڈائریکٹر اور چیف ایگزیکٹو سید محمد طحہ نے کہا کہ سب کچھ مسابقتی بولی کے ذریعے کیا جائے گا اور ہم حصہ لیں گے اور اگر ہم جیت جاتے ہیں تو حصص (پی ایس او کے وصولیوں) کے مقابلے میں آفسیٹ ہو جائیں گے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں طحہٰ نے کہا کہ ’یہ ہماری تجویز ہے اور یہ زیر غور ہے، اس لیے ہم حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

حکومت تقریباً 25 فیصد حصص کے ساتھ پی ایس او کی سب سے بڑی شیئر ہولڈر ہے، نجی شیئر ہولڈرز باقی حصص کے مالک ہیں۔

وزیر پٹرولیم اور وزیراطلاعات سمیت حکومتی حکام نے رائٹرز کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ جون 2023 تک پاکستان کے توانائی اور گیس کے شعبوں میں مجموعی گردشی قرضہ 4.6 ٹریلین روپے (17 ارب ڈالر) یا جی ڈی پی کا تقریبا 5 فیصد تھا۔

گردشی قرضہ عوامی قرضوں کی ایک شکل ہے جو بجلی کے شعبے کے سلسلے میں واجبات کی ادائیگی میں ناکامی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ، جس کا آغاز صارفین سے ہوتا ہے اور تقسیم کار کمپنیوں کو منتقل ہوتا ہے ، جو پاور پلانٹس کے مقروض ہیں جنہیں پھر ایندھن فراہم کرنے والے پی ایس او کو ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔

حکومت یا تو ان کمپنیوں کی سب سے بڑی شیئر ہولڈر ہے یا براہ راست مالک ہے جس کی وجہ سے قرضوں کو حل کرنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ مالی سختی کی وجہ سے اسے نقد رقم کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے طلب کیے گئے دیگر اقدامات میں پاکستان نے قرضوں میں اضافے کو روکنے کے لیے توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔

لیکن جمع شدہ رقم کو اب بھی حل کرنا ہوگا۔ طحہٰ نے کہا کہ آئی ایم ایف اصلاحات نے قرض دہندگان کی ادائیگی کی صلاحیت کو بڑھا کر اس شعبے میں مدد کی، جس میں بہتری آتی رہے گی۔

سرکاری اور خودمختار اداروں سے پی ایس او کی مجموعی وصولیاں 499 ارب روپے (1.8 ارب ڈالر) ہیں ۔

گزشتہ سال پی ایس او کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ واجب الادا قرضوں کا بحران اس کے لیے سنجیدہ مسئلہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اجلاس میں آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی جیسی منافع بخش پبلک سیکٹر کمپنیوں میں ایکویٹی حصص پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

پی آئی اے معاہدہ

طحہٰ نے کہا کہ پی ایس او پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز کی نجکاری کے وسیع تر تصفیے کے فریم ورک کا بھی حصہ ہے، جس میں ممکنہ طور پر صاف اثاثوں کا تبادلہ اور ائر لائن کے غیر اہم اثاثوں میں حصص شامل ہوں گے۔

مارچ میں میڈیا نے بتایا تھا کہ پی آئی اے پر ایندھن کی فراہمی کے لیے پی ایس او پر تقریبا 15.8 ارب روپے (57 ملین ڈالر) واجب الادا ہیں۔

طحہٰ نے مزید کہا کہ انہیں توقع ہے کہ کم شرح سود اور زیادہ ڈسپوزیبل آمدنی کی بدولت معیشت کے کھلنے کے ساتھ پٹرولیم مصنوعات کی طلب میں معمولی اضافہ ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ معاشی حالات میں بہتری کے ساتھ پی ایس او چین اور مشرق وسطیٰ کے بڑے اسٹریٹجک سرمایہ کاروں کے ساتھ مل کر اپنی ریفائنری شاخ پاکستان ریفائنری لمیٹڈ کو اپ گریڈ اور توسیع دینے کے لیے کام کررہا ہے۔

پی ایس او کے پاس 19 ڈپوز، 14 ہوائی اڈوں پر ایندھن بھرنے کی سہولیات، دو بندرگاہوں پر آپریشنز اور 1.14 ملین ٹن ذخیرہ کرنے کی پاکستان کی سب سے بڑی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کے علاوہ 3,528 ریٹیل آؤٹ لیٹس کا نیٹ ورک ہے۔

Comments

200 حروف