پاکستان

حکومت کا پنشن کا بوجھ کم کرنے کیلئے بڑا قدم اٹھانے پر غور

  • پنشن اخراجات کم کرنے کیلئے سروس اسٹرکچر کو تبدیل کرنا ہوگا، وزیر خزانہ
شائع May 8, 2024

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پنشن ایک بڑی ذمہ داری اور بوجھ بن چکی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ سروس اسٹرکچر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ پنشن کے اخراجات کو بتدریج کم کیا جا سکے۔

وزیر اطلاعات عطا تارڑ اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ سعودی وفد نے زبردست اعتماد کا اظہار کیا ہے اور بزنس ٹو بزنس ملاقاتیں بہت مثبت رہی ہیں کیونکہ مثبت معاشی اشاریوں سے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں بہتری آئی ہے۔

وزیر نے کہا کہ تجارتی خسارہ قابو میں ہے اور بمپر فصلوں کی وجہ سے زراعت کی جی ڈی پی پانچ فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔

وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں اور یہ دو ماہ کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔

اسی طرح انہوں نے کہا کہ کرنسی اب مستحکم ہے اور افراط زر بھی 38 فیصد سے کم ہو کر 17 فیصد رہ گیا ہے۔ یہ تمام چیزیں استحکام کا باعث بن رہی ہیں اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بہتر ہو رہا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ریٹیل سیکٹر کی رجسٹریشن کے لیے پہلا مہینہ رضاکارانہ تھا اور اسے موجودہ قوانین کے نفاذ کے ذریعے مئی اور جون 2024 کے مہینوں میں آگے بڑھایا جائے گا اور دوسرا پوائنٹ آف سیلز مشینیں اور ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے کیونکہ 9.5 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی ٹیکس پائیدار نہیں ہے اور درمیانی مدت میں اسے 13 سے 14 فیصد تک بڑھانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ وہ گزشتہ دو ماہ سے سرمایہ کاروں کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے ہیں اور کچھ سرمایہ کار امریکہ اور یورپ سے بھی آئے ہیں۔ ملک درست سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، ٹیکسوں میں اضافہ کرنا ہوگا اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات لائی جائیں گی جبکہ سرکاری اداروں (ایس او ایز) کے نقصانات کو کم کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ٹیم اگلے 07 سے 10 دنوں میں پہنچ جائے گی اور نئے پروگرام کے تحت ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے خدوخال پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے دو ہفتوں تک قیام کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ جب ملک آئی ایم ایف پروگرام میں ہوتا ہے تو کوئی پلان بی نہیں ہوتا کیونکہ آئی ایم ایف آخری راستہ ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت کو ٹیکسوں میں اضافہ کرنا ہوگا، توانائی کے شعبے میں اصلاحات کرنا ہوں گی، سرکاری اداروں کے خسارے کو کم کرنا ہوگا اور ان کی نجکاری کرنی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ترجیح یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے بچائو کیلئے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) قائم کی جائے، وزارت ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی کو کچھ بنیادی کام کرنے کی ضرورت ہوگی، انہوں نے مزید کہا کہ حکومت فنڈنگ کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی جانب بڑھ کر اخراجات کم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے، پنشن ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اور یہ سوچنا ضروری ہے کہ اس معاملے پر کس طرح آگے بڑھنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ سندھ حکومت کی تعریف کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے بہت اچھا ماڈل استعمال کیا ہے جسے وفاقی اور دیگر صوبوں میں بھی اپنایا جانا چاہئے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پنشن کا مسئلہ بہت بڑا بوجھ ہے وہ اسے دو تناظر میں دیکھتے ہیں، پہلا قدم نجی شعبے کی جانب سے ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال سے بڑھا کر 65 سال کرنے کا اٹھایا گیا تھا اور دوسرا آپشن سروس اسٹرکچر کو وقت کے ساتھ تبدیل کرنا ہے تاکہ پنشن کے اخراجات کو کم کیا جا سکے اور آہستہ آہستہ کنٹرول میں لایا جا سکے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آج کے جدید دور میں جو ملک آگے بڑھے گا وہ زندہ رہے گا ۔ اگر ہماری معیشت اچھی ہے تو انشاء اللہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اب ہمیں عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔

وزیر قانون نے کہا کہ وزیر اعظم نے پنشن کے معاملے پر وزیر خزانہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے اور ابھی تک اس حوالے سے کچھ بھی طے نہیں ہوا ہے اور اس معاملے پر صرف تجاویز مانگی جا رہی ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ پنشن اصلاحات کو حتمی شکل دینے کے بعد ہر جگہ لاگو کیا جائے گا، قیاس آرائیوں کے بعد وضاحت کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔ پنشن میں اصلاحات کے لئے مختلف محکموں کے ایکٹ میں تبدیلی کی ضرورت ہوگی چاہے وہ مسلح افواج ہوں، عدلیہ ہوں یا سول سروسز اور کچھ آئینی تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہوگی۔ عطا تارڑ نے کہا کہ پنشن کا بوجھ کم کرنے اور سروس پیریڈ بڑھانے کا معاملہ زیر غور ہے۔

شرح سود میں کمی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ پالیسی ریٹ اور مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج ریٹ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈومینز ہیں۔ تاہم انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ جس طرح افراط زر میں کمی آرہی ہے اسی طرح پالیسی ریٹ میں بھی کمی آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے کہا ہے کہ ستمبر 2025 تک شرح سود 5 سے 7 فیصد تک کم ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نہ صرف آئی ایم ایف سے بلکہ دیگر مالیاتی اداروں سے بھی قرضے حاصل کر رہی ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف