توانائی کے شعبے میں پائی جانے والی بہت سی خامیوں پر قابو پانا ابھی باقی ہے اور عوام کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا حکومت ان تمام مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جن سے علاقائی اور مسابقتی ممالک میں رائج شرح کے مساوی ٹیرف پر سستی اور بلا تعطل بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔

آج ملک میں، عام طور پر کابینہ اور خاص طور پر وزیر توانائی کو یہ بیانیہ الاپتے سنا جا سکتا ہے کہ بجلی کی چوری کو ان تمام لوگوں کے خلاف تادیبی کارروائی کے ذریعے روکا جائے گا جو قصوروار ہیں، چاہے وہ کسی بھی سیاسی اثر و رسوخ کے حامل ہوں۔

امید کی جاسکتی ہے کہ اس اصول کا اطلاق نہ صرف افراد بلکہ تمام اداروں پر ہوگا جن میں کابینہ کے تمام ارکان اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کی اپیکس کمیٹی میں نمائندگی کرنے والے افراد بھی شامل ہوں گے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ نصب العین مناسب ہے؟

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے اندازوں کے مطابق 17 فیصد بجلی چوری ہوتی ہے جبکہ بعض علاقوں میں یہ شرح 37.5 فیصد تک ہے۔ سیکرٹری پاور ڈویژن نے گزشتہ سال قائمہ کمیٹی برائے بجلی کو بریفنگ دیتے ہوئے مندرجہ ذیل اعداد و شمار فراہم کئے تھے: 2022-23 میں 380 ارب روپے مالیت کی بجلی چوری کی گئی تھی ۔ان میں سے میٹر کو بائی پاس کرکے(کنڈوں کے ذریعے) 200 ارب روپے،جبکہ میٹرنگ سسٹم کے اندرونی ڈھانچے میں ہیرا پھیری(میٹر ٹیمپرنگ) اور دیگر ذرائع سے 80 ارب روپے کی بجلی چرائی گئی۔ انہوں نےبجلی چوری کے ضمن میں رواں سال 520 ارب روپے کے نقصان کا تخمینہ لگایا۔

سات ستمبر 2023 کو تمام اسٹیک ہولڈرز نے بڑے پیمانے پر انسداد چوری مہم کا آغاز کیا تھا جس میں تقریبا 89.5 ارب روپے کی وصولی کا دعویٰ کیا گیا تھا۔اسے حال ہی میں واضح کیا گیا کہ انسداد چوری مہم سے 5 ارب روپے حاصل کئے گئے تھے جبکہ بقیہ رقم صارفین سے وصول کردہ بقایا جات کے زمرے میں حاصل کی گئی۔

یہ اعداد و شمار پریشان کن ہیں کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بجلی کی چوری میں نمایاں کمی نہیں آئی ہے ،جبکہ شاید بجلی چوری سے جمع شدہ واجبات کے حجم میں کمی واقع ہوئی ہے۔

بزنس ریکارڈر نے ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2.6ٹریلین روپے کے گردشی قرضے کے مقابل،وصولیوں کا حجم1.074 ٹریلین روپے ہے۔ ان میں سے سرکاری اداروں / تنظمیوں پر 70ارب روپے واجب الادا ہے۔ 28فروری2024 تک پانچ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں پر 976 ارب روپے کے واجبات تھے۔ ان میں سے پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے ذمہ 120ارب روپے،ٹرائبل الیکٹرک سپلائی کمپنی کے ذمہ 54ارب روپے،حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کے ذمہ 141ارب روپے، سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی کے ذمہ 165ارب روپے اور کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کے ذمہ 496ارب روپے شامل ہیں۔

ان پریشان کن اعداد و شمار نے بلاشبہ نو منتخب وزیر توانائی کو بجلی چوری کو معاشی دہشت گردی سے تشبیہ دینے پر مجبور کیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ 28 فروری 2024 تک بجلی چوری کے زمرے میں وصولیوں کا مجموعی حجم 1.9 ٹریلین روپے تھا۔ بی آر کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 1.074 ٹریلین روپے کی واجب الوصول رقم میں ان صارفین سے وصول کی جانے والی 165ارب روپے کی وصولیاں بھی شامل ہیں جن کے کنکشنز مستقل طورپر کاٹ دیئے گئے ہیں۔ (500 روپے یا 1000 روپے شامل کیے گئے ہیں تاکہ وہ رننگ ڈیفالٹر کی حیثیت برقرار رکھ سکیں جس کے بارے میں بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مناسب نہیں ہے) اور بہت سے موجودہ نادہندگان اپنے بقایا جات کو چیلنج کر رہے ہیں کہ انہیں بڑے پیمانے پر زائد بل بھیجے جارہے ہیں۔ صرف جولائی اور اگست 2023 کے بلوں اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے عوامی مظاہروں کو یاد کریں تو یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکےگا کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیاں صارفین کو حد سے زیادہ، بڑھا چڑھا کر اور غلط بل بھیجنے میں ملوث ہیں۔

اگرچہ وصولیوں کے مسئلے کے خاتمے سے ناقابل برداشت گردشی قرضوں میں کمی آئے گی ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے بجلی قیمت کی شرحوں (ٹیرف) میں کمی ہوسکے گی جو اس وقت انتہائی زیادہ ہیں۔ ان میں درج ذیل شامل ہیں: (1) ایندھن کی درآمدات کی لاگت جو نہ صرف ایندھن کی بین الاقوامی قیمت کی وجہ سے، بلکہ درآمدات کے وقت ڈالر کے مقابل روپے کی شرح تبادلہ کی وجہ سے اتار چڑھاؤ کا شکار ہوتی ہے، (2) بجلی کے ایک یونٹ کی پیداوار کی لاگت، جسے موسمی طور پر ایڈجسٹ کیا جاتا ہے کیونکہ گرمی کے مہینوں میں ہائیڈل پاور پلانٹس، زیادہ مہنگے درآمدی ایندھن کے ذرائع کے مقابلے میں زیادہ سستی بجلی پیدا کرتے ہیں، معمول کی دیکھ بھال سے گزرنا، (3) آپریشنز کو جاری رکھنے کی خاطر ضروری مالی وسائل پیدا کرنے کے لئے شعبے کی طرف سے قرضوں پر سود کی ادائیگی،(4) بھاری ٹیکس اور سرچارج، جو بجلی کے شعبے کے لیے وقف نہیں ہیں، لیکن حکومت کے موجودہ اخراجات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، اور (5) چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) کی چھتری تلےدستخط کیے گئے پاور پلانٹس کی مدت کے اختتام تک کیپسیٹی پیمنٹس کم ہونے کی توقع نہیں، بھلے ہی تمام پیداوار قابل تجدید توانائی اور ہائیڈل (پن بجلی )پر منتقل ہو جائے۔ چونکہ زیادہ ٹیرف کی وجہ سے بجلی کی کھپت میں کمی آئی ہے ، لہذا لوگ سولر پینل کی تنصیب کی طرف منتقل ہو رہے ہیں ، جس سے حکومت کے لئے کیپیسیٹی پیمنٹس کی ادائیگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر بجلی چوری کی روک تھام اور بقایا جات وصولی کی وجہ سے گردشی قرضوں میں نصف ارب ڈالر کی کمی واقع ہوتی ہے، جو کہ حالیہ تجربات کی بنیاد پر ایک خواہش آمیز ہدف ہے، تو کیا اس سے کثیرالجہتی فریقین مطمئن ہوں گے؟ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے 15 دسمبر 2024 کو ہونے والے اسٹاف لیول معاہدے (ایس ایل اے) اور جنوری 2024 میں آئی ایم ایف کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی گئی حتمی دستاویزات میں بجلی کے شعبے کی ادائیگی کے بقایا جات کو بجلی کے شعبے کے واجبات کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو درج ذیل سے پیدا ہوتے ہیں: (1) آزاد جموں و کشمیر کو بجلی سپلائی سے عدم وصولی، صنعتی سپورٹ پیکج، فاٹا سمیت دیگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں، نجی صارفین، اور بلوچستان ٹیوب ویلز (2) پاور ہولڈنگ پرائیوٹ لمیٹڈ (جس میں گردشی قرض کا کچھ حصہ رکھا گیا ہے) کی سروسنگ سے حاصل کردہ مارک اپ؛ (3) لائن لاسز اورعدم وصولیابی جو نیپرا کی طرف سے تسلیم نہیں کیے جاتے ہیں۔ (4) جی ایس ٹی نان ریفنڈ؛ (5) لیٹ پیمنٹ سرچارج؛ (5) سبسڈی کی ادائیگی میں تاخیر؛ اور (6) ٹیرف کے تعین میں تاخیر۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ آزاد جموں و کشمیر سے عدم وصولی بدستور جاری ہے، بلوچستان کے ٹیوب ویلز سے 300 ارب روپے کے واجبات، وسائل کی کمی کی وجہ سے سبسڈی اور جی ایس ٹی ریفنڈ میں تاخیر برقرار ہے۔

دوسرے لفظوں میں، اس بات کا جواب، کہ کیا صرف بجلی چوری کی روک تھام کے اقدامات ہی قرض دہندگان کو خوش کرنے یا واقعی ہائی ٹیرف کو کم کرنے کے لئے کافی ہوں گے، ایک واضح ’ نہیں’ ہے۔ اور، جیسا کہ اسی آئی ایم ایف دستاویز میں “بجلی کی ترسیل اور تقسیم کو بہتر بنانے، بجلی کی طلب کو بجلی گرڈ میں منتقل کرنے سمیت لاگت میں کمی لانے والی اصلاحات تیز کرنے ، ڈسٹری بیوشن کمپنی کی گورننس اور مینجمنٹ کو مضبوط بنانے، اور آخری بات “چوری کے خلاف موثر کوششیں کرنے’’ پر زور دیا گیا ہے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے 29 اپریل 2024 کو پریس ریلیز میں کہا گیا ہےکہ “حکام نے بروقت ٹیرف ایڈجسٹمنٹ اور وصولی کی کوششوں میں اضافے کے ذریعے ایس بی اے کے دوران توانائی کے شعبے کے گردشی قرضوں کو مستحکم کیا ہے۔

اگرچہ ان اقدامات کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے ، لیکن یہ بھی اہم ہے کہ حکام اس شعبے کے بنیادی مسائل اور قابل عمل ہونے کے لئے لاگت کے پہلو میں اصلاحات کریں۔ اگر آگے بڑھنے کیلئے ماضی کا راستہ ہی ترجیح ہے، تو کیپیسیٹی پیمنٹ میں اضافے کے ساتھ بجلی کی کھپت میں کمی جاری رہے گی۔ اس لئے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔

Comments

Comments are closed.