غزہ میں جنگ بندی کے امکانات بدستور کم دکھائی دے رہے ہیں کیوں کہ اتوار کو مذاکرات کے دوران حماس نے یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے جنگ کے خاتمے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا جسے اسرائیلی وزیر اعظم بینجیمن نیتن یاہو نے واضح طور پر مسترد کردیا ہے۔
مذاکرات میں فریقین نے ایک دوسرے پر بات چیت کامیاب نہ ہونے کا الزام لگایا ہے۔
فلسطینی حکام نے کہا کہ قاہرہ میں مصری اور قطری ثالثوں کے ساتھ جنگ بندی کے مذاکرات کے دوسرے دن حماس کے مذاکرات کاروں نے اپنا موقف برقرار رکھا کہ جنگ کا خاتمہ کسی بھی معاہدے سے ہونا چاہیئے۔
اسرائیلی حکام اس براہ راست مذاکرات کیلئے قاہرہ میں موجود نہیں تھے تاہم اتوار کو نیتن یاہو نے تقریباً سات ماہ قبل جنگ کے آغاز کے بعد سے اسرائیل کے اس مؤقف کا اعادہ کیا جس کے مطابق فلسطینی تحریک حماس کو غیر مسلح کرنا اور ختم کرنا ہے۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ بصورت دیگر مستقبل میں بھی اس کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں گے۔
نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل اپنے 130 سے زائد یرغمالیوں کی رہائی کیلئے جنگ روکنے پر تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے آمادگی کے باوجود حماس اپنے انتہائی مطالبات پر قائم ہے جس میں سب سے پہلے غزہ کی پٹی سے اسرائیلی افواج کو ہٹانا، جنگ ختم کرنا اور حماس کو اقتدار میں رہنے دیے جانا شامل ہے جسے اسرائیل قبول نہیں کرسکتا۔
نیتن یاہو کے بیان کے فوراً بعد جاری ہونے والے ایک بیان میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ حماس اب بھی ایک ایسی جامع جنگ بندی تک پہنچنے کی خواہاں ہے جو اسرائیلی جارحیت کو ختم کرے اور غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلاء کی ضمانت دے۔ انہوں نے کہاکہ اسرائیل فلسطینی قیدیوں کے بدلے یرغمالیوں کی رہائی ممکن بنانے کیلئے سنجیدہ معاہدہ قبول کرے۔
ہانیہ نے نیتن یاہو پر جارحیت کے تسلسل اور تنازعات کو بڑھانے اور ثالثوں و مختلف فریقوں کے ذریعے کی جانے والی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا الزام لگایا۔
یہ جنگ اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے 7 اکتوبر کو سرحد پار سے حملے کرکے اسرائیل میں افرا تفری پیدا کردی تھی۔ اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق حماس کے حملوں میں 1,200 افراد ہلاک اور 252 یرغمال بنائے گئے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں مزید 29 افراد شہید ہوئے۔ جنگ شروع ہونے کے بعد سے مجموعی طور پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 34 ہزار سے زائد افراد شہید جبکہ 77 ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی بمباری سے غزہ پٹی کا بیشتر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے جبکہ اس سے انسانی بحران بھی پیدا ہوچکا ہے۔
غزہ کے صحت حکام اور شہریوں نے بتایا کہ اسرائیلی طیاروں اور ٹینکوں نے شب بھر فلسطینی علاقوں میں بمباری کی۔ بمباری ایسے وقت میں کی گئی جب حماس کے ساتھ جنگ بندی کی بات چیت جاری تھی۔
ثالثی
اس سے قبل اتوار کو ایک فلسطینی عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا کہ قاہرہ مذاکرات کو چیلنجوں کا سامنا ہے کیونکہ قابض (اسرائیل) نے ایک جامع جنگ بندی کا عہد کرنے سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حماس کا وفد اب بھی اس امید پر قاہرہ میں موجود ہے کہ ثالث اسرائیل پر مؤقف تبدیل کرنے کیلئے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔
قطر، جہاں حماس کا سیاسی دفتر ہے، اور مصر نومبر میں ہونے والی مختصر جنگ بندی کے بعد مستقل جنگ بندی کیلئے ایسے وقت میں ثالثی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جب غزہ کے 23 لاکھ شہریوں کی حالت زار اور مسلسل بڑھتی ہوئی اموات پر عالمی برادری میں تشویش پائی جاتی ہے۔
مصری ذرائع نے بتایا کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز، جو گزشتہ جنگ بندی کے مذاکرات میں بھی شامل رہے ہیں، جمعے کو قاہرہ پہنچے۔ حماس کو دیگر مغربی قوتوں کی طرح دہشتگرد قرار دینے والے ملک امریکہ نے گروپ پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ جلد ایک معاہدہ کرے۔
اسرائیل نے ان شرائط کی ابتدائی منظوری دے دی ہے جس کے بارے میں ذرائع نے کہا ہے کہ اس میں سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور کئی ہفتوں کی جنگ بندی کے بدلے 20 سے 33 یرغمالیوں کی واپسی شامل ہے۔
اس سے غزہ میں تقریباً 100 یرغمالی رہ جائیں گے جن میں سے کچھ کے بارے میں اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ قید میں ہی ہلاک ہو گئے ہیں۔ ذرائع نے شناخت خفیہ رکھنے پر رائٹرز کو بتایاکہ ان یرغمالیوں کی رہائی کیلئے اضافی معاہدے کی بھی ضرورت پڑسکتی ہے۔
ہفتے کے روز ہزاروں اسرائیلیوں نے احتجاج کرتے ہوئے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے حماس کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کرنے کا مطالبہ کیا جس کے تحت بقیہ یرغمالیوں کو وطن واپس لایا جائے گا۔
Comments
Comments are closed.