دنیا

ترکیہ نے اسرائیل کے ساتھ تجارت روکنے کا اعلان کردیا

غزہ میں مکمل جنگ بندی اور انسانی امداد کےتحفظ تک 7ارب ڈالر کی تجارت دوبارہ شروع نہیں ہوگی،انقرہ
شائع May 3, 2024

ترک وزیر تجارت عمربولات نے جمعے کے روز کہا کہ ان کا ملک اسرائیل کے ساتھ 7 ارب ڈالر سالانہ کی تجارت اس وقت تک دوبارہ شروع نہیں کرے گا، جب تک کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی اور انسانی امداد کو محفوظ نہیں بنایا جاتا۔

اس اقدام سے ترکیہ اسرائیل سے اپنی تجارت معطل کرنے والا تل ابیب کا پہلا اہم تجارتی شراکت داربن جائے گا۔

وزیر تجارت عمر بولات کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ”سمجھوتہ نہ کرنے والے رویے“ اور غزہ کے علاقے میں بے گھر افراد کے لئے پناہ گاہ کی حیثیت رکھنے والے علاقے رفح کی بگڑتی ہوئی صورتحال،اور اس پراسرائیل کی جانب سے حملے کی دھمکی نے انقرہ کو(اسرائیل سے) تمام برآمدات اور درآمدات روکنے پر مجبور کردیا ہے۔

اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے ترک صدر رجب طیب اردوان کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بین الاقوامی تجارتی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے اور ’ایک ڈکٹیٹر کا طرز عمل‘ ہے۔

غزہ پر حکومت کرنے والی تنظیم حماس نے ترکیہ کے اس فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے اسے دلیرانہ اور فلسطینیوں کے حقوق کا حامی قرار دیا ہے۔

اسرائیل کی فوجی مہم، جس نے گنجان آباد فلسطینی علاقے کو برباد کر دیا ہے،پر کئی ماہ سے شدید تنقید کے بعد انقرہ کا یہ سب سے مضبوط قدم ہے ۔ صدر اردوان کو اسرائیل کے خلاف ٹھوس کارروائی کے لئے اپنے ملک میں بڑھتے ہوئے عوامی مطالبات کا سامنا تھا۔

جمعہ کی نماز کے بعد خطاب میں صدراردوان نے کہا کہ ترکیہ ”نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی بمباری“ کے سامنے خاموش نہیں رہ سکتا۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ رہائشی علاقوں میں چھپی حماس کو نشانہ بنا رہا ہے۔

ترک وزیر تجارت عمر بولات کا کہنا ہے کہ ترکیہ ”فلسطینی بھائیوں کے ساتھ متبادل انتظامات پر بات چیت کر رہا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ اس فیصلے سے متاثر نہ ہوں“۔

گزشتہ ماہ ترکیہ نے اسرائیل کے لئے اسٹیل، فرٹیلائزر اور جیٹ فیول سمیت 54 مصنوعات کی برآمدات پر پابندی عائد کردی تھی کیونکہ اسرائیل نے انقرہ کو غزہ کے لیے امدادی فضائی کارروائیوں میں حصہ لینے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔

ترکیہ کی جانب سے اب نئی پابندی میں باقی تمام تجارت کا احاطہ کیا گیا ہے، جو ترکیہ کی برآمدات میں 5.4 بلین ڈالر یا اسرائیل کی تمام درآمدات کا تقریبا 6 فیصد ہے۔

تجارتی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل کو ترکیہ کی سب سے زیادہ برآمدات اسٹیل، گاڑیاں، پلاسٹک، برقی آلات اور مشینری ہیں۔ جبکہ درآمدات میں ایندھن کا غلبہ ہے جو گزشتہ سال 634 ملین ڈالر تھا۔

وال اسٹریٹ بینک جے پی مورگن نے کہا ہے کہ ترکیہ کی جانب سے برآمدات کے اس تعطل سے مختصر مدت میں اسرائیل میں اشیاء کی قیمتوں میں معمولی اضافہ ہوسکتا ہے۔

چار ترک برآمد کنندگان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اس اقدام سے انہیں دھچکا پہنچا ہے،اوراسرائیل سے اشیاء کے مضبوط آرڈر رکھنے والے افراد تیسرے ممالک کے راستے تل ابیب کو سامان بھیجنے کے طریقے تلاش کرنے لگے ہیں۔

اسرائیلی وزیر خارجہ کاٹز نے کہا کہ اسرائیلی درآمدات اور برآمدات کے لئے بندرگاہوں کو بلاک کرنا تجارتی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر مزید کہا کہ اسرائیل ترکیہ کے ساتھ تجارت کے متبادل ممکنات کی طرف کام کرے گا۔

تاہم مرمرہ یونیورسٹی کی فیکلٹی آف لاء کی خاتون پروفیسر میلٹیم ساریبیاوگلو سکلر کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اسرائیل کی جانب سے غزہ میں انسانی قوانین کے عالمی طور پر تسلیم شدہ اصولوں کی پامالی کے خلاف ترکیہ کی طرف سے ایک قانونی جوابی اقدام ہے۔

ترکیہ نے غزہ میں اسرائیل کی فوجی مہم کی مذمت کی ہے، غزہ کے باشندوں کے لیے ہزاروں ٹن امداد بھیجی ہے اور رواں ہفتے کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کی نسل کشی کے مقدمے میں شامل ہوگا۔

اسرائیل غزہ میں نسل کشی یا وہاں انسانی قوانین کی خلاف ورزی کی کارروائیوں سے انکار کرتا ہے۔ ترکیہ کے سابق سفارت کار اور سینٹر فار اکنامک اینڈ فارن پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر سنان الگن کا کہنا ہے کہ اس اقدام کو ترکوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر حمایت حاصل ہے کیونکہ ’عام رائے یہ ہے کہ اسرائیل کے بارے میں حکومت کا رد عمل ناکافی ہے۔‘ ترکش ایکسپورٹرز اسمبلی کا کہنا ہے کہ اگر چند ماہ میں اسرائیل کے ساتھ تجارت دوبارہ شروع نہیں ہوتی تو ملک کو سال کے اختتام پر برآمدات کے اہداف کو 267 ارب ڈالر سے کم کرکے 260 ارب ڈالر کرنا پڑے گا۔ اس کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2023 کے مقابلے میں اس سال اپریل میں اسرائیل کو برآمدات میں 24 فیصد کمی آئی ہے۔

Comments

200 حروف