سرخی یہ ہے کہ افراط زر بلآخر 20 فیصد سے نیچے آگئی ہے۔ یہ اپریل 2024 میں 17.3 فیصد رہی جو مئی 2022 کے بعد سب سے کم شرح ہے۔ گزشتہ 2 سالوں میں بیس فیصد سے زیادہ مہنگائی کی داستان بتاتی ہے کہ عام آدمی کو اخراجات کے انتظامات میں کن مصائب سے گزرنا پڑا ہے۔ قوت خرید ختم ہو چکی ہے اور معیشت دم توڑ رہی ہے تاہم جلد خراب نہ ہونے والی اشیا میں افراط زر کی رفتار کم ہونے کے رحجانات نظر آرہے ہیں۔

مالی سال 2024 کے 10 ماہ میں اوسط مہنگائی 26 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے جوکہ سال کے اختتام پر 24 سے 25 فیصد رہنے کا امکان ہےاور آئندہ 2 ماہ میں افراط زر کی شرح 15 سے18 فیصد کے آس پاس رہنے کی توقع ہے جس میں وقت کے ساتھ بتدریج کمی کا بھی امکان ہے۔ اشیائے خور و نوش میں بیس ایفکٹ اور کمی کا رححجان اشیا کی بین الاقوامی قیمتوں میں کمی، کرنسی میں نسبتاً استحکام (کسی بڑے جھٹکے کی توقع نہیں ہے) اور مانگ پوری نہ ہونا (حقیقی شرح کو مثبت رکھنے کے لیے اسٹیٹ بینک کی حکمت عملی کی وجہ سے) جیسے عوامل افراط زر کو 20 فیصد سے نیچے رکھنے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔

تیل کی بین الاقوامی قیمتوں، پاور سیکٹر میں مسلسل نااہلیوں اور دیگر اخراجات (لیگیسی کوسٹ) کی وجہ سے توانائی کی قیمتوں کا خطرہ زیادہ رہنے کا خدشہ ہے۔ یہ مہنگائی میں کمی کا سفر محدود کردے گا۔

۔ ۔
۔ ۔

تاہم بدترین دور پیچھے رہ گیا ہے اور اعداد و شمار اس کا ثبوت دے رہے ہیں۔ خوراک کے زمرے میں مہنگائی ایک ہندسہ یعنی 9.7 فیصد پر ہے جس میں ماہانہ 2.4 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ گندم اور آٹے کی قیمتوں میں کمی سب سے زیادہ رہی۔ شہری علاقوں میں کمی کی شرح 9 سے 10 فیصد رہی جبکہ جبکہ دیہی علاقوں میں کمی کی شرح اس سے زیادہ ہے۔ قیمتوں کے حساس اشاریے (ایس پی آئی) واضح کرتے ہیں کہ قیمتوں میں کمی کا سلسلہ مئی بھی جاری رہے گا۔ ایندھن کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے یا موسمی حالات کی سبب سپلائی متاثر ہونے کی کمی اور اشیائے خور و نوش مستقبل قریب میں مہنگائی کی رفتار کم کرنے میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں گے۔ پیاز، ٹماٹر اور پولٹری جیسی خراب ہونے والی اشیاء کی قیمتیں غیر معمولی طور پر زیادہ رہتی ہیں لیکن اگر سپلائی کے حالات بہتر ہوتے ہیں تو خوراک کی قیمتوں کے حساس اشاریے کو نمایاں طور پر نیچے لانے میں مددمل سکتی ہے۔

چینی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں کمی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے جبکہ دودھ اور دیگر مصنوعات میں اضافے کی شرح عروج پر ہے۔ مستحکم کرنسی، بلند شرح سود، گرتی ہوئی عالمی اشیائے خوردونوش کی قیمتیں، اور کم مانگ خوراک میں گرتی ہوئی افراط زر کے رجحانات میں حصہ ڈال رہے ہیں۔

دوسری جانب بنیادی افراط زر اسی رفتار سے نیچے نہیں آرہی ہے تاہم اس میں اضافہ معمولی رہا ہے۔ اپریل 2022 میں یہ 15.6 فیصد رہی، جبکہ مئی 2023 میں یہ 22.7 فیصد کو پہنچ گئی تھی۔ بنیادی افراط زر اپریل میں ماہانہ بنیادوں پر 2.1 فیصد بڑھی۔ اس میں اضافے کی ایک وجہ گھر کے کرایوں میں سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ ہے (جو ہر چار ماہ بعد ہوتا ہے)۔

. .
. .

اس کے بعد دیگر وجوہات یا دباؤ بھی ہیں جس میں جوتوں، کپڑوں (شہری علاقوں میں ماہانہ بنیادوں پر 6.5 فیصد) اور تعلیم میں (دیہی علاقوں میں 12 اعشاریہ 7 فیصد تک) اضافہ ہے۔ اس کی وجہ عید سیزن، ختم اور شروع ہونے والا نیا تعلیمی سال ہے۔ بہر حال زیادہ اضافہ سیکنڈ راؤنڈ امپیکٹ سے توانائی کی قیمتوں میں اضافے اور اور اجرتوں میں نظر ثانی کو ظاہر کرتا ہے۔

اس طرح بنیادی افراط زر ایک جیسی رفتار سے کم نہیں ہوسکتی اور سیکنڈ راؤنڈ ایفکٹ اور سیزن کے اثرات ممکنہ طور پر مختلف شعبوں میں آتے رہیں گے۔

اہم بات اگلے بجٹ اور آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کو دیکھنا ہے۔ سیلز ٹیکس میں چھوٹ ختم کرنے سے نئے ٹیکسوں کا نفاذ ہو سکتا ہے جس کے نتائج مزید مہنگائی کی صورت میں ہوں گے۔ پھر زیر التواء ادائیگیوں کی منظوری اور درآمدی پابندیوں کے خاتمے کی وجہ سے کرنسی ایڈجسٹ ہو سکتی ہے۔ اور تیسرا پاور سیکٹر کی بنیادی قیمت پر نظرثانی کرنا ضروری ہے۔ . .

تجزیہ کار روپے کی قدر میں معمولی کمی اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی توقع کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا اتفاق ہے کہ مالی سال 25 میں افراط زر 15 سے 17 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ تاہم اس اسے انکار کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ تجزیہ کار اور اسٹیٹ بینک گزشتہ 2 سالوں میں مہنگائی سے متعلق درست پیشن گوئی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

اس لیے آپ کسی بھی مالیاتی نرمی کی توقع نہ کریں۔

Comments

Comments are closed.