مانیٹری پالیسی اسٹیٹمنٹ (ایم پی ایس) نے مورخہ 29 اپریل کو شرح سود کو 22 فیصد پر اس بنیاد پر برقرار رکھا کہ معاشی بحالی کے دوران میکرو اکنامک استحکام کے اقدامات افراط زر اور بیرونی پوزیشن دونوں کی بہتری میں کافی معاون ثابت ہورہے ہیں، لیکن مہنگائی کی سطح اب بھی بلند ہے.

مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے آخری بار شرح سود کو 26 جون 2023 کو ایڈجسٹ کیا تھا، جب ایک ہنگامی میٹنگ طلب کرکے شرح سود کو 100 بیسس پوائنٹس (bps) بڑھا کر 22 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

یہ مایوس کن ہے کہ شرح سود میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے حالانکہ اس وقت کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) مارچ 2024 کے 20.7 فیصد کے مقابلے میں 29.4 فیصد کی بلند ترین سطح پر تھا اور زرمبادلہ کے ذخائر کی پوزیشن 19 اپریل 2024 کو 7981 ملین ڈالر کے مقابلے میں 4069.9 ملین ڈالر (23 جون 2023 کو) خطرناک حد تک کم تھی۔

29 اپریل 2024 کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بورڈ کی منظوری کے بعد اس ہفتے 1.1 ارب ڈالر کی اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) کی آخری قسط کے ساتھ ریزرو بڑھ کر 9081 ملین ڈالر ہو گئے۔

پچھلے سال جون میں شرح سود بڑھانے کی وجہ آئی ایم ایف کی پیشگی شرط تھی جس کی نشاندہی اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ عملے کی سطح کا معاہدہ دو دن بعد 29 جون 2023 کو طے پایا تھا۔ 26 جون کے ایم پی ایس میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا حالانکہ اس نے غلط طور پر نوٹ کیا کہ “جاری آئی ایم ایف پروگرام کی متوقع تکمیل اور مالی سال 24 میں بنیادی سرپلس پیدا کرنے کے حکومتی ہدف پر عمل پیرا ہونے سے بیرونی شعبے کے خطرات سے نمٹنے اور معاشی غیر یقینی صورتحال کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

غلطیاں چار چیزوں میں تھیں: (i) اس وقت کے جاری لیکن معطل آئی ایم ایف پروگرام کو ترک کر دیا گیا اور 29 جون کونئے پروگرام کی منظوری دے دی گئی، (ii) دوست ممالک کے ساتھ ملکر اہم بیرونی خطرات کا سامنا کیا گیا، جس میں ان کی وعدہ کردہ امداد، رول اوور اور نئے قرضے شامل تھے، جس سے ایک بارپھر پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں واپس آیا، (iii) جولائی تا جنوری کے لیے بنیادی خسارے کا ہدف گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 105.32 فیصد بڑھ گیا ہے، جو جولائی تا جنوری 2024 میں جی ڈی پی کا 1.8 فیصد ریکارڈ کیا گیا جو کہ گزشتہ برس 1.1 فیصد رہا تھا۔ تاہم یہ ان اقدامات کی بھاری قیمت تھی، اندرونی قرضے میں اضافہ ہوا جس نے ایم پی ایس کے مطابق قرض لینے کی بلند شرح اور حکومت کے مہنگے اندرونی قرضوں پر انحصار کی وجہ سے سود کی ادائیگیوں میں اضافہ کیا، اور (iv) سیاسی بے یقینی کی وجہ سے معاشی عدم استحکام جاری رہا۔

بنیادی افراط زر، خوراک اور توانائی کے علاوہ جون میں 18.5 فیصد سے کم ہو کر 15.7 فیصد رہ گیا، جو کہ شرح سود کا ایک بڑا عامل ہے اور دونوں کے درمیان موجودہ 6.3 فیصد کا فرق شاید ملک کی تاریخ میں سب سے زیادہ وسیع ہے اور ملکی اقتصادیات کے ماہرین کی سمجھ میں آنے والے زمینی حقائق کے بجائے مغربی آئی ایم ایف کی ناقص پالیسی کے غلبے کی نشاندہی کرتا ہے۔

لیکن جو چیز حیران کن ہے اور شرح سود میں کمی نہ کرنے کے جواز پر قیاس آرائیوں کو ہوا دیتی ہے اور شرح سود کے بنیادی مقصد کیخلاف وہ ایم پی ایس کے مطابق 15.7 فیصد کی بنیادی افراط زر کا حوالہ ہے۔ تاہم، پاکستان بیورو آف شماریات (پی بی ایس) 12.8 فیصد کی بنیادی افراط زر کو نوٹ کرتا ہے، جو کہ شرح سود میں 9.2 فیصد کے فرق کو ظاہر کرتا ہے۔

ایم پی سی نے رواں سال کے لیے 2 سے 3 فیصد کے درمیان ترقی کی منصوبہ بندی کی ہے، یہ ایک بار پھر ناقابل فہم تخمینہ ہے کیونکہ پی بی ایس کے سہ ماہی قومی کھاتوں نے اس سال جولائی تا ستمبر 2.5 فیصد اور اکتوبر تا دسمبر 2023 میں صرف 1 فیصد اضافہ نوٹ کیا ہے۔

ایم پی سی نے رواں سال کی پہلی ششماہی میں زراعت میں 6.1 فیصد کی مضبوط نمو کو نوٹ کیا، خاص طور پر وہ فصلیں جو کل جی ڈی پی میں 12 فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتی ہیں (حالیہ بارش کے اسپیل نے سیکٹر کے ماہرین کو یہ اعلان کرنے پر مجبور کر دیا کہ گندم کا ہدف 3 ملین ٹن پورا نہیں ہوگا) جبکہ بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ انڈسٹری نے جولائی تا فروری 2024 میں 0.5 فیصد کمی کا اعلان کیا۔ عالمی بینک کا رواں سال میں پاکستان کے لیے ترقی کا تخمینہ 1.8 فیصد اور آئی ایم ایف کا 2 فیصد ہے۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی، ایم پی ایس کے مطابق درمیانی مالی آمدن کی وجہ سے اسٹیٹ بینک ایک ارب ڈالر کے یورو بانڈ سمیت بڑے قرضوں کی ادائیگی کے قابل ہوا، اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 8 ارب ڈالر تک برقرار رہے۔ ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہوا ، ٹیکس میں اضافے کی وجہ مہنگائی کی بلند شرح ہے جبکہ نان ٹیکس ریونیو میں اضافے کی وجہ ں پیٹرولیم لیوی ہے جو موجودہ سال کےبجٹ میں 869 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے، جس کی وصولی کیلئے لیوی کو زیادہ سے زیادہ 60 روپے فی لیٹر کرنے کی ضرورت تھی جبکہ فنانس بل میں یہ 50 روپے فی لیٹر مقرر کی گئی تھی۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ شرح سود کو مستقل رکھنے کا فیصلہ معاشی نظریات کے ان اصولوں سے لیا جا سکتا ہے جو ترقی یافتہ معیشتوں پر لاگو ہوتے ہیں اور آئی ایم ایف کے عملے کی طرف سے ان پر عمل کیا جاتا ہے،حالانکہ کئی دہائیوں سے رائج اس ملک کے زمینی حقائق پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، لیکن ہماری اقتصادی ٹیم کے لیڈروں کے پاس شاید اس معیشت کے حوالے سے نہ تو تعلیمی پس منظر ہے اور نہ ہی تعلیمی قابلیت جو یہ چیلنج لے سکیں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

Comments are closed.