اداریہ

بے قابو مہنگائی

25 اپریل کو ختم ہونے والے ہفتے کے لیے حساس قیمت کا اشاریہ جاری کیا گیا، جو ملک بھر کے 17 شہروں کی 50 مارکیٹوں سے...
شائع May 1, 2024

25 اپریل کو ختم ہونے والے ہفتے کے لیے حساس قیمت کا اشاریہ جاری کیا گیا، جو ملک بھر کے 17 شہروں کی 50 مارکیٹوں سے اکٹھی کی گئی 51 ضروری اشیاء پر مشتمل ہے، جو 1.10 فیصد کمی کے ساتھ 26.94 فیصد سالانہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

پریشان کن بات یہ ہے کہ بزنس ریکارڈر کی طرف سے بار بار نشاندہی کئے گئے تین مشاہدات پاکستان بیورو آف شماریات (پی بی ایس) کے ڈیٹا اکٹھا کرنے کے حوالے سےاہم ہیں جن کے فوری تدارک کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے، جن یوٹیلیٹی ٹیرف کو مدنظر رکھا گیا ہے وہ سب سے کم شرحیں ہیں، جو اوسط کے بجائے ٹیکس دہندگان کے اخراجات پر سبسڈی دی جاتی ہیں، اوسط شرح افراط زر کو زیادہ مناسب طریقے سے ظاہر کرے گی۔

دوسری بات یہ ہے کہ جب مہنگائی زیادہ ہوتی ہے تو اسے کم دکھانے کے لیے سیاسی دباؤ ہوتا ہے، پھر چاہیے وہ ظاہری ہویا خفیہ، یہ اہم ہے کہ ادارہ شماریات یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن میں مروجہ قیمتوں پر انحصار کرتا ہے، جن پر نہ صرف سبسڈی دی جاتی ہے بلکہ بعض اوقات اشیا کے خراب معیار کی وجہ سے ان کی مانگ بھی نہیں ہوتی ہے اورعوام اوپن مارکیٹ سے مہنگی اشیاء خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

اس کی ایک مثال گزشتہ مالی سال یوٹیلٹی اسٹورز پر سستے داموں دستیاب گندم ہے، جو انسانی استعمال کے لیے موزوں نہیں تھی۔

اور آخری بات، مہنگائی کی شرح کو کم دکھانے کی کوشش سے عام لوگوں کے اندر بہتری کا احساس پیدا ہونے کا امکان نہیں ہے، دوسرے لفظوں میں، ایک عام گھریلو فرد ایک ہفتے سے اگلے تک قیمتوں میں اضافہ برداشت کرتا ہے جبکہ اس کی آمدنی اسی مدت میں بڑھنے کا امکان نہیں ہوتا۔

چاہے جیسا بھی ہو،حساس قیمت کا اشاریہ 18اپریل کو ختم ہونے والے ہفتے میں 28.54 فیصد ریکارڈ کیا گیا تھا، جوسالانہ کی بنیاد پر 25 اپریل کو ختم ہونے والے ہفتے میں گر کر 26.94 فیصد پر آ گیا ۔یعنی 1.6 فیصد کی کمی ہوئی، حالانکہ ادارہ شماریات کے مطابق یہ کمی 1.10 فیصد ہے۔

رواں سال 18 اپریل سے 25 اپریل کے درمیان 22,889 روپے سے 29,517 روپے کے درمیان آمدنی والوں کو افراط زر کا سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا، ان کیلئے 25 اپریل کوشرح 30.74 فیصد ریکارڈ کی گئی،جو 18 اپریل کو 32.49 فیصد تھی ۔ جبکہ 29,518 روپے سے 44,175 روپے کے درمیان آمدنی والوں کیلئے یہ شرح 18 اپریل کو 29.95 فیصد تھی، جو25 اپریل کو کم ہوکر 28.23 فیصد ہوگئی۔

اور ستم ظریفی یہ ہے کہ 44,175 روپے سے زیادہ کمانے والوں کو دو ہفتوں کے درمیان مثبت تبدیلی کا سامنا رہا۔ جو25 اپریل کو 25.98 فیصد سے کم ہوکر 24.53 فیصد پر آگیا۔ واضح طور پر ڈنمارک کی ریاست میں کچھ بوسیدہ ہے.

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے منیجنگ ڈائریکٹر نے ریاض میں ورلڈ اکنامک فورم کے دوران تسلیم کیا کہ پاکستان کے لیے مہنگائی بدستور ایک مسئلہ ہے۔ تاہم، افسوس کی بات یہ ہے کہ جب وہ اورانکی ٹیم کے ارکان اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے دوسرے اور آخری جائزے پر عملے کی سطح کے معاہدے تک پہنچنے میں مصروف تھے تو وہ ان تمام عوامل پر توجہ مرکوز کرنے میں ناکام رہے جو مہنگائی میں حصہ ڈال رہے ہیں، اس لئے اگلے مالی سال کیلئے نئے پروگرام کی شرائط کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے، جن میں تین باتیں اہم ہیں۔ (i) آئی ایم ایف کے زیر اہتمام انتظامی اقدامات جن کے لیے یوٹیلیٹی سیکٹرز کو لاگت کی مکمل وصولی کی ضرورت ہوتی ہے ایک اقتصادی طور پر قابل عمل مقصد ہے،اس کے باوجود کہ اس نے شعبہ جاتی کارکردگی کو بہتر بنانے کے بجائے شرحوں میں اضافہ کیا ہے۔ (ii) پیٹرولیم لیوی سمیت موجودہ ٹیکسوں کو بڑھانے پر انحصارکرنا، جو کہ ایک بالواسطہ ٹیکس ہے جس کا اثر امیروں سے زیادہ غریبوں پرپڑتا ہے، غیر منصفانہ ٹیکس اسٹریکچر میں اصلاح کی جائے یہ برابری کے بنیاد پر سب کیلئے قمیتوں میں اضافہ کی وجہ ہے۔ (iii) حکومت پر مقامی شعبے کا بڑھتا ہوا قرضہ جو کہ غیر ترقیاتی اور انتہائی مہنگے اخراجات کو فنڈ دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔جو سود کی ادائیگیوں کو بڑھتا ہے، جس کے نتیجے میں مالیاتی خسارہ بڑھتا ہے، یہ ایک بار بھی مہنگائی میں اضافے کی پالیسی ہے۔

آئی ایم ایف کی پوری توجہ افراط زر کو روکنے کے لیے شرح سود بڑھانے پر مرکوز ہے، یہ پالیسی فیصلہ ہے جو مغربی معیشتوں کے لیے موزوں ہے حالانکہ پاکستان میں افراط زر اور شرح سود کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔ زیادہ شرح سود پر نجی شعبے کے قرضے لینے سے پیداوار پر منفی اثر پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں ہماری غیر محفوظ سرحدوں پر ایندھن کی اسمگلنگ روپے کی قدر پر سنگین اثرات مرتب کرتی ہے، جس نے تاریخی طور پر درآمدی افراط زر میں اضافہ کیا ہے۔

امید کی جاسکتی ہے کہ موجودہ اقتصادی ٹیم کے رہنما اس ملک پر لاگو ہونے والے اس بنیادی اقتصادی پیراڈائم سے واقف ہیں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف