سعودی عرب کی میزبانی میں اتوار کو شروع ہونے والے عالمی اقتصادی فورم کے خصوصی اجلاس میں غزہ میں جنگ اور مشرق وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی سب سے اہم موضوع بننے کی امید کی جارہی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن، فلسطینی رہنما اور اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی کوشش کرنے والے دوسرے ممالک کے اعلیٰ عہدے دار ریاض میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے مہمانوں کی فہرست میں شامل ہیں۔

سعودی وزیر منصوبہ بندی فیصل الابراہیم نے ہفتے کے روز تقریب کا جائزہ لیتے ہوئے ایک پریس کانفرنس میں کہا، دنیا اس وقت سلامتی اور خوشحالی میں توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایسے وقت میں مل رہے ہیں جب ایک غلط فیصلہ ہماری مشکلات کو مزید بڑھا دے گا۔

غزہ کی جنگ کا آغاز حماس کے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر غیر معمولی حملے سے ہوا تھا۔

اسرائیل کا اندازہ ہے کہ 7 اکتوبر کو عسکریت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے 129 یرغمالی ابھی بھی غزہ میں قید ہیں، جن میں سے 34 ہلاک ہو چکے ہیں۔

وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کی جوابی کارروائی میں غزہ میں کم از کم 34,388 افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔

ورلڈ اکنامک فورم ( ڈبلیو ای ایف) کے صدر بورج برینڈے نے ہفتے کی پریس کانفرنس میں بتایا کہ یرغمالیوں کے بارے میں بات چیت اور غزہ پر تعطل کو دور کرنے میں نئی پیش رفت ہوئی ہے۔تاہم اس اجلاس میں کوئی اسرائیلی شرکت نہیں ہوگی، قطر اور مصر کی ثالثی کہیں اور سے ہو رہی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ بلنکن “غزہ میں جنگ بندی کے حصول کے لیے جاری کوششوں پر تبادلہ خیال کریں گے جو یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بناتی ہے۔

حماس نے کہا کہ وہ ہفتے کے روز غزہ میں ممکنہ جنگ بندی کے حوالے سے تازہ ترین اسرائیلی تجویز کا جائزہ لے رہی ہے، جس کے ایک دن بعد میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ ثالث مصر کا ایک وفد تعطل کا شکار مذاکرات شروع کرنے کی کوشش میں اسرائیل پہنچا ہے۔

سعودی عرب نے شروع سے ہی دیگر علاقائی اور عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر غزہ میں جنگ کو روکنے کی کوشش کی ہے اور اس قسم کے صورتحال سے بچنے کی کوشش کی ہے جو اس کے وژن 2030 کے نام سے مشہور اقتصادی اصلاحات کے ایجنڈے کو پٹڑی سے اتار سکتی ہے۔

Comments

200 حروف