اداریہ

کرنٹ اکائونٹ سرپلس

مارچ 2024 میں619 ملین ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ کیا گیا جو کہ گزشتہ سال مارچ میں 537 ملین ڈالر تھا۔ جس کی وجہ...
شائع April 26, 2024

مارچ 2024 میں619 ملین ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ کیا گیا جو کہ گزشتہ سال مارچ میں 537 ملین ڈالر تھا۔ جس کی وجہ رمضان/عید کے دوران سرکاری ذرائع سے ترسیلات زر کی زیادہ آمد اور کم تجارتی خسارہ ہے۔

اگرچہ ناقدین کہہ سکتے ہیں کہ ترسیلات زر کی زیادہ آمد مسلسل بلند افراط زر کی شرح کی وجہ سے ہو سکتی ہے،کیونکہ بیرون ملک پاکستانیوں کو اپنے خاندانوں کے معیار زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ پیسے بھیجنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن درحقیقت کرنٹ اکائونٹ کے سرپلس ہونے کی تعریف کی جانی چاہیے ۔ ہوسکتا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی غیر سرکاری اور غیر قانونی ہنڈی/حوالہ سسٹم کے ذریعے رقم بھجوانے کی ترجیح کا خاتمہ ہوگیا ہو۔ اکتوبر 2022 سے جون 2023 کے درمیان روپے اور ڈالر کی قدر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کرنے کی کوشش نے ڈالر کی قدر کے سرکاری اور غیر سرکاری فرق کو جنم دیا تھا جس کے نتیجے میں حوالہ سسٹم ڈالر کے 10 روپے زیادہ ادا کرتا تھا۔

روایتی طور پر کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس درآمدات پر پابندیوں کے نیتجے میں کم تجارتی خسارے کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سمیت دیگر ان پابندیوں کی مخالفت کر رہے ہیں کہ یہ مارکیٹ کو تباہ کرتا ہے۔ پاکستان کے معاملے میں یہ پابندیاں پیداواری صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتی ہیں کیونکہ بہتر حالات میں خام مال کی درآمدات سست ہوجاتی ہیں اور بدترین حالات میں میں مکمل طور پر بند ہوجاتی ہیں۔ آج بھی زرمبادلہ کی کچھ پابندیاں برقرار ہیں (بشمول ایندھن کی درآمدات کے ساتھ ساتھ غیر ملکی کمپنیوں کو منافع کی واپسی سے متعلق)،آئی ایم ایف کی اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پرگزشتہ برس پہلی جائزہ دستاویزات میں ایک حقیقت بیان کی گئی ہے جس میں فنڈ کے عملے نے نوٹ کیا ہے کہ“کاروباری لوگوں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے درمیان بینکوں کے ذریعے زرمبادلہ تک ناکافی رسائی کے بارے میں کچھ شکایات برقرار ہیں۔“۔ اہم بات یہ ہے کہ کہ نگراں حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ جاری آئی ایم ایف پروگرام کے اختتام تک تمام زرمبادلہ کی پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔ پہلی جائزہ دستاویزات میں نوٹ کیا گیا کہ: “جولائی سے نومبر 2023 کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو کر 1.2 ارب ڈالر رہ گیا جو مالی سال 23 کی اسی مدت میں جون میں درآمدی ترجیحی ہدایات کے خاتمے کے باوجود 3.3 ارب ڈالر تھا۔

کرنٹ اکاؤنٹ میں تین دیگر اہم اجزاء ہوتے ہیں جن کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، جولائی تا مارچ 2024 کے درمیان براہ راست سرمایہ کاری منفی 980 ملین ڈالر ریکارڑ کی گئی جوگزشتہ برس کے مقابلے میں منفی 267 ملین ڈالر تھی۔ ایسے میں جب تمام اسٹیک ہولڈرز پوری طرح دوست ممالک سے غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کی کوشش کررہے ہیں تو انہیں ابتک صرف دلکش وعدے ہی ملے ہیں، پھر بھی کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس شیٹ اس کی عکاسی تب ہی کرے گی جب انفلوز کا ادراک ہو جائے گا۔ دوسرا، اسٹاک مارکیٹ میں نمایاں تیزی کے باوجود پورٹ فولیو سرمایہ کاری جولائی تا مارچ 2023 کے دوران 1013 ملین ڈالر سے کم ہو کر منفی 168 ملین ڈالر رہ گئی۔ یہ بھی ملک کو درپیش موجودہ معاشی صورتحال کی بنیاد پر سرمایہ کاری کی آمد کے لیے اچھا نہیں ہے حالانکہ یہی منطق دوست ممالک سے آنے والی رقوم پر لاگو نہیں ہو سکتی۔ اور آخری اہم بات کہ بجٹ خسارہ جولائی تا مارچ مالی سال 2023 میں منفی 946 ملین ڈالر سے بڑھ کر 2024 میں تشویشناک مثبت 3,197 ملین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔

اگرچہ کرنٹ اکاؤنٹ کا سرپلس بہتری کی نشاندہی کرتا ہے، لیکن یہ اضافہ مکمل طور پر زرمبادلہ کی وجہ سے جیسے ترسیلات زر اور تجارت کی وجہ سے ہونا چاہیے نا کہ قرض میں اضافے کی وجہ سے کرنٹ اکائونٹ سرپلس ہو۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف