وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے عالمی بینک/بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے موسم بہار کے سالانہ اجلاسوں کے موقع پر اسٹینڈرڈ اینڈ پورز اور فچ کے نمائندوں سے ملاقات کی اورآئی ایم ایف پروگرام کی نتیجے میں مثبت میکرو اکنامک اشاریوں پر روشنی ڈالی۔ جس پروگرام پر عملے کی سطح کا دوسرا اور آخری معاہدہ 20 مارچ 2024 کو طے پا چکا ہے، حالانکہ آئی ایم ایف بورڈ کی طرف سے اسکی باضابطہ منظوری آنا ابھی باقی ہے۔

اطلاعات کے مطابق وزیر خزانہ نے چند روز قبل عالمی سطح پر تیسری بڑی ریٹنگ ایجنسی موڈیز کے نمائندوں سے ملاقات کی تھی۔ تینوں ریٹنگ ایجنسیوں کے نمائندوں کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کو سراہا جانا چاہیے، کیونکہ انہوں نے اپنے پیشرو کی طرح دھمکیاں دینے کے بجائے حکومت کی لیکویڈیٹی اور بیرونی کمزوریوں کو کم کرنے پر زور دینے کا انتخاب کیا۔ جو غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے سے ظاہر ہوتی ہیں، حالانکہ ان کا بنیادی ذریعہ قرض اور دوطرفہ تعلقات ہیں، جس سے بیرونی خطرات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

ریٹنگ ایجنسیوں کا پاکستان کی معیشت میں انتہائی اہم کردار ہے، جس کی وجہ بجٹ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بیرون ملک کمرشل بینکوں سے قرضے لینے اور قرض ایکویٹی (سکوک/یوروبانڈز) کے اجراء پر بڑھتا ہوا انحصار ہے۔

2022-23 میں حکومت نے بیرون ملک کمرشل بینکوں سے 1389.7 ارب روپے کا قرضہ لیا لیکن آئی ایم ایف کے نویں توسیعی فنڈ سہولت پروگرام پر عملے کی سطح کے معاہدے تک پہنچنے میں ناکامی کی وجہ سے صرف 521.5 ارب روپے ہی حاصل ہو سکے۔ ان تینوں ایجنسیوں کی طرف سے ہماری ریٹنگ میں کمی اس شرح سود کو بڑھا رہی ہے جس پر پاکستان کو قرضہ دستیاب تھا۔

مزید برآں، گزشتہ مالی سال سکوک/یوروبانڈ کے اجراء سے 372 ارب روپے حاصل نہیں کئے جاسکے، کیونکہ پیشکش پر شرح سود بہت زیادہ تھا۔ ان دو عوامل کی وجہ سے خسارہ ہوا جو بجٹ سے بہت زیادہ تھا، جس کی وجہ سے افراط زر میں زبردست اضافہ ہوا۔

رواں مالی سال 1305 ارب روپے کا بجٹ کمرشل قرضوں اور 435 ارب روپے سکوک/یورو بانڈز کے طور پر رکھا گیا ہے جو اس سال کے اوائل میں اس وقت کے نگراں وزیر خزانہ کے مطابق پیشکش پر زیادہ شرح سود کی وجہ سے حاصل نہیں ہو سکا۔

اس طرح اگر اورنگزیب ان دونوں ذرائع سے قرض حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ریٹنگ ایجنسیوں کے خدشات کو کم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ وزیر خزانہ کی یقین دہانی شاذ و نادر ہی تین بڑی عالمی ریٹنگ ایجنسیوں کی طرف سے اپ گریڈ کا باعث بنتی ہے۔

دراصل وہ ڈیٹا دیکھنا چاہتے ہیں جو غیرمبہم طور پر اس بات کی نشاندہی کرے کہ تمام متعلقہ اشاریوں بشمول زر مبادلہ کے ذخائر اور ان کے ذرائع میں اضافہ ہوا ہے، اور واضح طور پر پاکستان میں اصلاحات( توانائی سیکٹر اور ٹیکس کا شعبہ) کے ایجنڈے پر نہ صرف عمل ہورہا ہے بلکہ آئی ایم ایف کا پروگرام ان اصلاحات کی رفتار کی سختی سے نگرانی کے لیے موجود بھی ہے۔

اگلا آئی ایم ایف قرضہ پروگرام باضابطہ طور پرمانگ لیا گیا ہے اور اگلے ماہ ایک مشن کی آمد متوقع ہے جو شرائط پر بات چیت میں حصہ لے گا، ، جو بلاشبہ ریٹنگ ایجنسیوں کے لیے اطمینان کا باعث ہوگا۔

تاہم جو چیز حکومت کے لیے اہم ہے وہ اصلاحات کی رفتار کے مطابق آئی ایم ایف کے عملے کے ساتھ بات چیت میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا ہے۔ کیونکہ انتظامی اقدامات کے بوجھ کو برداشت کرنے کی عام آدمی کی سکت کو بھی پیش نظر رکھنا ہے، جس میں مسلسل ہر ماہ مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے کمی ہورہی ہے۔ترقی کی صلاحیت سکڑنے سے نجی شعبے کی تنخواہوں میں اضافے کی سکت کمزور ہوگئی ہے جبکہ لاگت میں اضافے نے پیداوار کو برقرار رکھنا مشکل بنادیا ہے۔

اس مخمصے سے مختصر مدت (ایک سال تک) میں نکلنے کا ایک طریقہ یہ ہوگا کہ ان لوگوں سے رضاکارانہ قربانیاں لیں جو موجودہ اخراجات کے بڑے وصول کنند ہیں، پنشن اصلاحات شروع کریں جو سرکاری ملازمین کے لیے اپنی پنشن میں حصہ ڈالنا لازمی بنائے۔ ملکی اور غیر ملکی قرضوں پر کوئی حد مقرر کی جائے، جس پر عمل نہ ہو تو اسکے نتائج کا سامنا کرنا پڑے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر،

Comments

200 حروف