کرنٹ اکاؤنٹ حیرت انگیز طور پر مارچ 2024 تک 619 ملین ڈالر سر پلس رہا ، جو کہ فروری 2015 کے بعد سب سے زیادہ سرپلس ہے۔ ماہ رمضان کے اثر انداز ہونے کے نتیجے میں یہ زیادہ سرپلس شاید یک طرفہ کیونکہ ترسیلات زر اور اشیا کی لین دین بھی بہت زیادہ ہوئیں۔اگر سیکنڈ انکم اکاؤنٹ کو چھوڑ دیا جائے تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پچھلے مہینے کے مقابلے زیادہ ہوتا۔

اندرون ملک ترسیلات، جو کہ 2.95 بلین ڈالر تھی جو اپریل 2022 کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے، کی بڑی وجہ منفی مالیاتی پالیسی کے سبب ملک سے سرمائے کے اخراج میں بھی کمی ہے۔اور لوگوں میں شاید سرمایہ بیرون ممالک منتقل کرنے کے حوالے سے بھی اضطراب نہیں پایا گیا جیسا کہ گزشتہ عرصے میں دیکھنے میں آیا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کی خدشات بھی تیزی سے دم توڑ رہے ہیں۔

 ۔
۔

اچھی خبر یہ ہے کہ سرمائے کے داخلی بہاؤ میں تیزی، کرنٹ اکاؤنٹ کا زیادہ خسارہ، سخت مالیاتی پالیسی، اور خراب نہ ہونے والی اشیائے خورونوش کی گرتی ہوئی قیمتوں کو دیکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک کو جلد ہی مانیٹری پالیسی میں نرمی کے بارے میں سوچنا ہوگا۔

معاشی طلب کم ہے۔ درآمدی ٹول (بذریعہ ادائیگی) مسلسل 4.5 بلین ڈالر کے نشان سے نیچے آ رہا ہے۔ تاہم کچھ لوگ یہ قیاس کر رہے ہیں کہ اسٹیٹ بینک کے درآمدی ڈیٹا (حقیقی مقدار کے مطابق) کی بنیاد پر مانگ بڑھ رہی ہے۔ یہ تعداد 4.87 بلین ڈالر رہی جو دسمبر 2022 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔

 ۔
۔

پٹرولیم کی درآمدات میں نمایاں اضافہ ہو اہے جس میں خام تیل کی درآمد 945ٹن بھی شامل ہے 22 ماہ کی بلند ترین سطح پر ہے جبکہ پٹرول کی درآمد بھی چھ ماہ کی بلند ترین سطح پر آگئی۔ اسمگلنگ کے بڑھتے حجم اور گرتی ہوئی مانگ کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات کی فروخت میں بڑے پیمانے پر کمی کو دیکھتے ہوئے یہ تعداد ماؤرائے عقل ہے کیوں کہ جب ایک ریفائنری ڈیزل کی کمی کی وجہ سے بند ہوگئی ہو تو سرکاری درآمدات کیسے عروج پر ہو سکتی ہیں؟

. .
. .

آخر کار یہ کیا ہو رہا ہے کہ جنوب میں ایک کمپنی نے غیر معمولی طور پر زیادہ مقدار میں خام تیل درآمد کیا ہے۔ شنید ہے کہ کمپنی روسی تیل کو رعایت اور شاید اچھے کریڈٹ پر درآمد کر رہی ہے۔

پٹرولیم کے علاوہ خورنی تیل کی درآمدات مقدار اور امریکی ڈالر دونوں اعتبار سے زیادہ تھیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ماہ رمضان اور عید کے موقع پر پکوڑے اور دیگر تلی ہوئی چیزوں کا استعمال بڑھا ہو۔ مشینری اور دھاتوں کی درآمدات میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔ تاہم اعداد و شمار اب بھی اپنے عروج سے دور ہیں۔

. .
. .

برآمدات کی کہانی اتنی بڑی نہیں ہے۔ برآمدی ٹول 2.اعشاریہ 5 بلین ڈالر رہا جو کہ گزشتہ 12 مہینوں کی اوسط کی نسبت قدرے بہتر ہے، تاہم ایسا لگ رہا ہے کہ یہ تعداد بڑھ سکتی ہے۔ خاص طور پر چاول کی برآمدات کا فائدہ ختم ہوتا جارہا ہے اور صنعت کاروں(ٹیکسٹائل و ملبوسات کی تیاری کرنے والوں) کو ایندھن کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے مانگ اور مارجن سے نمٹنے میں سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔

پالیسی ساز زیادہ ماہانہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کو دیکھ کر کوئی مانگ پیدا کرنے کے بارے میں نہیں سوچ سکتے، کیونکہ چاول کی زیادہ برآمدات اور بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات کی پائیداری پر بھی شکوک و شبہات بدستور موجود ہیں۔ اس لیے اسٹیٹ بینک کو چاہیئے کہ وہ حقیقی نرخوں کو مثبت رکھے۔ اس لیے اسٹیٹ بینک کو حقیقی نرخوں کو مثبت رکھنا چاہیے اور کرنٹ اکاؤنٹ مثالی طور پر صفر کے قریب رہنا چاہیے کیوں کہ مالی سال 24 کے 9 ماہ کا خسارہ 500 ملین ڈالر رہا ہے۔

Comments

Comments are closed.