برسات کا موسم آتا ہے اور تباہی کے پرانے سلسلے کو دہراتا ہے ،اچانک سیلاب آنا، چھتیں گرنا،آسمانی بجلی گرنا، کرنٹ لگنا، بند سڑکیں، موت اور نقل مکانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن سے بچا بھی جاسکتا ہے۔ مزید یہ کہ ملک کے کچھ پسماندہ حصے ہمیشہ دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
یہ سب کچھ طویل عرصے سے جاری ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ آنے والے کچھ عرصے تک یہی مقدر ہے۔ کیونکہ یہ مسلسل ریاست کی نااہلی ہے۔ریاست کو دلچسپی ہی نہیں ہے ایسے احتیاطی اقدامات اٹھانے سے جس سے ہر سال بہت سی زندگیاں، انفراسٹرکچر اور پیسہ بچ سکتا ہے۔
ایک اور کہانی ہے جو ہربار سنائی جاتی ہے ۔ مثال کے طور پر کوئٹہ میں ”متعلقہ محکموں“ کے تقریباً 200 ملازمین کو تیز بارش کے دوران فرائض کی انجام دہی میں غفلت برتنے پر برطرف کر دیا گیا ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بارش سے ہونے والے نقصان کی بڑی وجہ صوبائی دارالحکومت اور اس کے گردونواح میں 82 نالوں پر تجاوزات ہیں جنہوں نے سڑکوں اور انسانی بستیوں سے بارش کے پانی کے بہاؤ کو روکا ہے۔
ڈویژن کمشنر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تعمیر کے وقت برساتی نالے 40 فٹ چوڑے تھے، لیکن اب تجاوزات کی وجہ سے صرف 20 فٹ رہ گئے ہیں۔
یقیناً یہ واضح سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ وقت سے پہلے کیوں نہیں درست کیا گیا۔ سسٹم کا اس طرح کی ابتر صورتحال میں رہنا کافی برا ہے، لیکن یہ ہر بار ہوتا ہے، بغیر کسی وقفے کے، اس میں کوئی شک نہیں کہ نظام کی تباہی کا عمل بہت گہرا ہے۔ لیکن کلہاڑی صرف دو سو نچلے درجے کے ملازمین پر نہیں چلنی چاہیے،اوپر کے افسران کیخلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے، جو اس صورتحال کے زیادہ ذمہ دار ہیں۔
اب، ملک کے کچھ حصوں میں رین ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا، جس کے بعد غریب شہری اپنے گھروں کو سیلاب کی نذر ہونے، اپنی زندگیوں اور معاش کو دوبارہ خطرے میں پڑتے دیکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔
چونکہ سول انتظامیہ ایک اور قدرتی آفت کو روکنے کے لیے ناکام رہی ہے، اور مسلسل ناکام ہو رہی ہے، اس لیے شاید حکومت میں موجود کسی کو ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے پورے نظام کو دوبارہ ترتیب دینے پر غور کرنا چاہیے۔
ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو سارا سال وسائل دئیے جاتے ہیں تاکہ قدرتی آفت سے نمٹنے کی تیاری کی جاسکے لیکن جب بھی امتحان کا وقت آتا ہے تو وہ خود ہی تباہی کی ایک تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔
ایسی چیزیں ہمیں ادارہ جاتی اصلاحات کے وسیع، بڑے اور بہت زیادہ اہم مسئلے کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ ناگزیر ہے، تمام پارٹیاں انتخابی مہم میں اس کے لیے بات کرتی ہیں، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد کوئی بھی ایسا نہیں کرتا۔ کیونکہ یہ ایک طویل اور تکلیف دہ عمل ہے جو ابتدا میں عوامی عدم اطمینان میں اضافہ کرے گا اور ممکنہ طور پر آنے والے انتخابات میں اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔ اس لیے کوئی بھی اپنے دعوؤں پر عمل نہیں کرسکتا ہےاور صورتحال جوں کی توں رہتی ہے۔
اس کے باوجود کہ ملک ہر اعتباد سے بہت مشکل صورتحال کا سامنا کررہا ہے اور خودساختہ زخموں کا مشکل سے ہی متحمل ہوسکتا ہے، یہ بہت شرم کی بات ہے کہ حکومت اوروزارتوں کی نااہلی کی وجہ سے ایسے مسائل پیدا ہورہے ہیں جس کے باعث لوگ مرتے ہیں، زندگی متاثر ہوتی ہے اور معیشت کو نقصان پہنچتا ہے۔
ہمیشہ کی طرح صرف امید کی جاسکتی ہے کہ اگلی بار صورتحال مختلف ہو گی۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر
Comments
Comments are closed.