ایک حیرت انگیز اقدام کے طور پر جاپان نے پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ وہ پاکستان میں تین کار اسمبلنگ پلانٹس کی تیار کردہ کاروں کی جبری برآمد کا کیس عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) میں لے جائے گا۔ باخبر ذرائع نے بتایا کہ ٹوکیو کے نزدیک یہ برآمد ڈبلیو ٹی او کے اصولوں کے خلاف ہے۔
کاریں بنانے والے تین جاپانی ادارے ہونڈا، ٹویوٹا اور سوزوکی پاکستان میں بالترتیب ہونڈا اٹلس کارز پرائیویٹ لمٹیڈ، انڈس موٹر کمپنی اور پاک سوزوکی موٹر لمٹیڈ کے نام سے کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کی کار مارکیٹ میں ان تینوں کمپنیوں کا مجموعی حصہ 75 تا 80 فٰیصد ہے۔
آٹو انڈسٹری ڈویلپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ پالیسی (اے آئی ڈی ای پی) 2021-26 کے مطابق بیشتر مقامی مینوفیکچررز کا ان کے پرنسپلز کے ساتھ معاہدہ صرف پاکستان کی مارکیٹ کے لیے ہے جو کہ محدود برآمدات کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔
پاکستان یونائٹیڈ نیشنز اکنامک کمیشن برائے یورپ (یو این ای سی ای) WP-29 سے الحاق یافتہ ہے جو گاڑیوں سے متعلق قواعد میں ہم آہنگی یقینی بناتا ہے اور مقامی آٹوموٹو سیکٹر درآمدی مارکیٹ کے قوائد پر مکمل عملدرآمد کی صورت میں برآمدات بڑھاسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ، تمام او ای ایم کنٹریکٹس جو پاکستان سے کسی دوسرے ملک کو گاڑی کی برآمدات کو منع یا روکتے ہیں، ان پر دوبارہ ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔ مینوفیکچررز کی طرف سے آٹو پارٹس اور گاڑیوں کی برآمد اے آئی ڈی ای پی کے تحوت ہوگی۔ برآمدات میں اضافے کی کوشش سے قبل او ای ایم کو مطلع کیا جائے گا۔ ہدف کو شیڈول سے قبل حاصل کرنے کی ترغیب ضرور دی جائے گی۔
پالیسی نے او ای ایمزکے لیے 2022-23 میں کل درآمد کے تناسب کے طور پر 2 فیصد کاریں، 24-2023 میں 4 فیصد، 2024-25 میں 7 فیصد اور 2025-26 میں 10 فیصد کاروں کو برآمد کرنا لازمی قرار دیا ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر میں خصوصی سرمایہ کاری کی سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) نے جاپانی کمپنیوں کی جانب سے کاروں کی صفر برآمد کا سنجیدگی سے نوٹس لیا اور وزارت صنعت و پیداوار کو تینوں جاپانی اسمبلرز کے درآمدی کوٹہ کو دوبارہ درست کرنے کی ہدایت کی۔بعدازاں ان کا درآمدی کوٹہ کچھ دنوں کے لیے معطل کر دیا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ جاپانی کار اسمبلرز سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنا ایکسپورٹ پلان حکومت کو پیش کریں۔ ایس آئی ایف سی کے اجلاس میں آٹو کمپنیوں کے منصوبے زیربحث آئے اور ان سے کہا گیا کہ وہ ان پر نظر ثانی کریں۔
کار اسمبلرزاور وزارتِ صنعت و پیداوار کے درمیان نظرِثانی شدہ ایکسپورٹ پلان پر بات چیت جاری تھی کہ جاپانی حکومت نے ٹوکیو میں پاکستانی سفارت خانے، ڈبلیو ٹی او میں پاکستانی مشن، وزارتِ تجارت اور وزارتِ صنعت و پیداوار کو خط لکھ دیا۔
کار اسمبلرز اور MoI&P کے درمیان نظرثانی شدہ برآمدی منصوبے پر بات چیت جاری تھی، لیکن اس دوران جاپانی حکومت نے (ٹوکیو) جاپان میں پاکستان کے سفارت خانے، ڈبلیو ٹی او میں پاکستان کے مشن، وزارت تجارت، وزارت صنعت و پیداوار کو باضابطہ طور پر خط لکھ دیا۔
اعلیٰ سطح کے سرکاری ذرائع کے مطابق جاپان نے کہا ہے کہ پاکستان جاپانی کاریں اسمبل کرنے والے اداروں پر اپنے ماڈلز برآمد کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے جو ڈبلیو ٹی او کے سمجھوتے کی خلاف ورزی ہے۔
تاہم، پاکستان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ حکومت نے اس سلسلے میں جو بھی قدم اٹھایا ہے، وہ ڈبلیو ٹی او کے مطابق ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فریقین کے پاس اپن اپنے دلائل اور جواز ہیں۔ پہلے معاملات دوطرفہ بنیاد پر طے کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اگر دونوں حکومتیں ایسا کرنے میں ناکام رہیں تو یہ معاملہ ڈبلیو تی او کی کسی کمیٹی میں جائے گا۔
ڈبلیو ٹی او کے طریقِ کار کے مطابق یہ معاملہ کمیٹی آن مارکیٹ ایکسیس اور کمیٹی آن ٹریڈ ریلیٹیڈ انویسٹمنٹ میژرز (ٹی آر آئی ایمز) میں اٹھایا جائے گا۔ ٹی آر آئی ایمز کے سمجھوتے تجارت کو محدود یا مسخ کرنے والی اشیا کی تجارت سے متعلق سرمایہ کاری پر نافذ نہیں ہوتے۔
جب یہ معاملہ ڈبلیو ٹی او میں اٹھایا جائے گا تب پاکستان سے کہا جائے گا کہ وہ جاپانی تحفظات کے ازالے سے متعلق اپنا جواب داخل کرے۔ پاکستان متعلقہ کمیٹی کے اگلے اجلاس میں اپنا جواب داخل کرے گا۔ اگر جاپانی حکومت پاکستان کے جواب سے دو یا تین بار میں بھی مطمئن نہ ہوئی تو پھر یہ معاملہ ڈبلیو ٹی او کے تنازعات نمٹانے والے ادارے میں جائے گا۔
اگر ایسا ہوا تو ڈبلیو ٹی او میں معاملات کو نمٹانے کے عمل کی ابتدا میں ایک سال لگے گا کیونکہ تناعات نمٹانے والے ادارے میں درخواست براہِ راست نہیں دی جاسکتی۔
اوریجنل اکوپمنٹ مینوفیکچررز کا استدلال ہے کہ پاکستانی میں حتمی شکل پانے والے پارٹیس، سی بی یو اور استعمال شدہ کاروں کی برآمد پر اضافی ٹیرف کے باعث برآمدی شعبے میں مسابقت کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ آزاد تجارت کا معاہدہ موجود نہیں اور پارٹس اس معاہدے کا حصہ نہیں۔
جبکہ دوسری وجہ مقامی خام مال کی عدم موجودگی برآمدات کو غیر مسابقتی بناتی ہے اور اس کا تیسراسبب یہ ہے کہ رائٹ ہینڈ ڈرائیو کے محدود راستے گاڑیوں کی برآمد کو ناقابل عمل بنا دیتے ہیں۔
پاکستان میں تیار کی جانے والی پروڈکٹس کو برآمدی منڈی میں مسابقت کے قابل بنانے کے لیے آسیان، جی سی سی اور افریقا کے لیے زیرو ریٹیڈ ایف ٹی اے لازم ہے۔ مقامی طور پر تیار کیے جانے والے تمام پارٹس اور وینڈرز اور او ای ایمز میں کی جانے والی سرمایہ کاری کو ایف ٹی اے پر دستخط کے ذریعے محفوظ بنانا لازم ہے۔
آٹو سیکٹر کے مطابق زیرو ریٹیڈ ایکسپورٹ کو او ای ایمز کے ٹائر ون اور ٹائر ٹو سپلائرز تک پھیلانا لازم ہے جو ایس آر او 655 اور 656 کے تحت کام کر رہے ہوں تاکہ مقامی پارٹس کو مسابقت کے قابل بنایا جاسکے، اسٹیل، تانبے اور ایلومینیم کی فراہمی کے لیے مقامی میٹل انڈسٹری قائم کی جائے اور پی پی، پی ای اور پی یو جیسے ربر اور دیگر خام کے لیے مقامی پروسیسنگ انڈسٹری قائم کی جائے۔
اس وقت آٹو سیکٹر کے 25 مقدمات مقامی عدالتوں میں زیرِسماعت ہیں جن میں 23 نئے اداروں کے ہیں۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں جاپانی سفیر نے وزیرِ تجارت جام کمال اور وزیرِ صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین سے ملاقات میں کوٹے اور جبری برآمد کا اشو اٹھایا ہے۔
Comments
Comments are closed.