ہائی کورٹ کو دھمکی آمیز خطوط
اسلام آباد ہائی کورٹ ایک بار پھر نظروں کا مرکز ہے، اور ایک بار پھر اس سے متعلق خبریں انتہائی پریشان کن ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ کر عدلیہ کو دھمکانے کی کوششوں کی تفصیل دی تھی۔ جس کا بالآخر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا، حالانکہ اس سے پہلے اس معاملے پر سپریم کورٹ میں زیادہ گرما گرم بحث نہیں ہوئی تھی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے آٹھ ججوں کو اب انتھراکس سے بھرے خطوط موصول ہوئے ہیں، بظاہر یہ خطوط تحریک ناموس پاکستان نامی ایک نامعلوم تنظیم کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے کچھ ججوں کو بھی اینتھراکس سے بھرے خطوط موصول ہوچکے ہیں۔
اس واقعے کے بعد دہشت گردی کے الزامات کے تحت جو ایف آئی آر درج کی گئیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ آٹھ خطوط میں سے چار میں مشکوک پاؤڈر ملے ہیں، جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے عملے کے ایک رکن کی جانب سے ایک لفافہ گرانے کی میڈیا رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں۔ جس کے بعد اس کو آنکھوں اور ہونٹوں کے گرد جلن کا احساس ہوا۔ اسلام آباد پولیس کو اس واقعے کے بارے میں فوری طور پر مطلع کر دیا گیا ہے، اور اب اس نے خطوط کی اصلیت جاننے کیلئے تفتیش اور پاؤڈر کی فرانزک جانچ شروع کر دی ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بظاہر اسی گروہ کا ایک اور دھمکی آمیز خط گزشتہ ستمبر میں اسلام آباد کے ٹریل 5 پر ملنے والے ایک بیگ کے اندر سے برآمد ہوا تھا۔ بیگ میں دستی بم اور ایک پستول بھی موجود تھا ۔یہ خط دراصل اس وقت کی نگراں حکومت اور مسلح افواج کے ساتھ ملک کے نظام انصاف پر حملہ تھا۔
اگرچہ ہماری تاریخ میں ججوں کو طاقتور حلقوں کی طرف سے دھمکیوں کا سامنا کرنے کی مثالیں ملتی ہیں،بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پہلی بار انہیں کسی نامعلوم تنظیم سے تعلق رکھنے والے نامعلوم افراد کی طرف سے ہراساں کیا جارہا ہے، جس کے ممکنہ طور پر مہلک نتائج ہو سکتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ خط بھیجنے والے 2001 کے اینتھراکس حملوں سے متاثر تھے جو 9/11 کے واقعات کے فوراً بعد امریکہ میں ہوئے تھے، جہاں اس مہلک پاؤڈر پر مشتمل خطوط میڈیا اداروں اور سیاست دانوں کو بھیجے گئے تھے، جس کے نتیجے میں متعدد اموات اور بیماریاں ہوئیں، جبکہ عوام میں خوف وہراس پھیل گیا۔
واضح طور پر ایسے اقدامات کا مقصد عدلیہ میں دہشت اور خوف پیدا کرکے اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوناہے، قانون کی حکمرانی رکھنے والے کسی بھی ملک میں عدالت کے فیصلوں پر اثرانداز ہونےاقدامات کسی بھی صورت برداشت نہیں کیے جا سکتے۔
پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو معاملے کی تہہ تک پہنچنے، مجرموں کو پکڑنے، اوراس کے پیچھے محرکات کو بے نقاب کرنے کے لیے ہر کوشش کرنی چاہیے۔ مزید برآں، نہ صرف اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے بلکہ سپریم کورٹ کے دفاتر اور ملک کی دیگر ہائی کورٹس کے اردگرد بھی سیکورٹی بڑھانے کی ضرورت ہے۔
مجرموں کی گرفتاری کی فوری ضرورت ہے تاکہ اس طرح کی کارروائیاں دوسرے افراد اور اداروں کو نشانہ بنانے کے لیے نہ دہرائی جاسکیں، ایسی کارروائی سے ہماری سرزمین پر پہلے سے سرگرم متعدد دہشت گرد گروپس کے حوصلے بڑھ سکتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تیز رفتاری سے کام کرنا چاہیے کیونکہ کوئی بھی ایسا عمل جو عوام کے ساتھ ریاست کے ستونوں میں خوف و ہراس پھیلاتا ہے ملکی استحکام کیلئے نقصان دہ ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر
Comments
Comments are closed.