مارک اپ ادائیگیاں چیلنج بنی ہوئی ہیں،وزارت خزانہ

باخبر ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ وزارت خزانہ نے کہا ہے کہ مارک اپ ادائیگیاں چیلنج بنی ہوئی ہیں کیونکہ حکومت...
شائع April 6, 2024

باخبر ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ وزارت خزانہ نے کہا ہے کہ مارک اپ ادائیگیاں چیلنج بنی ہوئی ہیں کیونکہ حکومت نےکفایت شعاری پالیسی پر بھرپور عمل درآمد کے ذریعے دیگر اخراجات پر سخت نظر رکھی ہے ۔

30 مارچ 2024 کو، وسط سال 2023-24 کے جائزے کا اشتراک کرتے ہوئےفنانس ڈویژن نے کابینہ کو بتایا کہ پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019 کے سیکشن 34 کے تحت وفاقی حکومت ہر سال 28 فروری تک قومی اسمبلی کے سامنے وسط سال کی جائزہ رپورٹ پیش کرے گی۔

رپورٹ میں بجٹ اور محصولات، اخراجات اور فنانسنگ کا موازنہ فراہم کیا گیا ہے اور اسے کابینہ کی منظوری سے قومی اسمبلی کے سامنے پیش کرنے کے بعد فنانس ڈویژن کی ویب سائٹ پر شائع کرنا ضروری تھا۔

فنانس ڈویژن نے بتایا کہ مالی سال 2023-24 کے لیے وسط سال کی جائزہ رپورٹ پہلی ششماہی پر ایک مختصر معاشی اپ ڈیٹ اور مالیاتی کارکردگی کی تفصیلات فراہم کرتی ہے جس میں محصولات اور اخراجات دونوں شامل ہیں۔

رپورٹ میں حکومت کی طرف سے ملکی اور بیرونی ذرائع سے شروع کیے گئے فنانسنگ آپریشنز پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں مزید کہا گیا کہ زیر جائزہ مدت کے دوران حقیقی شعبے نے زرعی پیداوار کے ساتھ ملی جلی کارکردگی دکھائی جس کے امید افزا امکانات ہیں۔

بیرونی شعبے میں نمایاں بحالی دیکھنے میں آئی کیونکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 3.6 بلین ڈالر کے مقابلے میں کم ہو کر 831 ملین ڈالر رہ گیا ہے ۔

مالی محاذ پر استحکام کی کوششیں ٹریک پر رہیں کیونکہ محصولات میں 63 فیصد اضافہ دیکھا گیا، ایف بی آر کی وصولی میں 30 فیصد اضافہ اور نان ٹیکس ریونیو میں 117 فیصد اضافہ ریکارڈکیا گیا ہے ۔ تاہم مارک اپ ادائیگیاں ایک چیلنج بنی رہیں کیونکہ حکومت نے وفاقی کابینہ کی طرف سے منظور کیے گئے کفایت شعاری کے اقدامات پر بھرپور عمل درآمد کے ذریعے دیگر اخراجات پر سخت نظر رکھی ہوئی ہے ۔

اسٹاک ایکسچینج میں اجارہ سکوک کی پہلی کامیاب نیلامی کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی فنانسنگ زیادہ تر ملکی ذرائع سے کی گئی۔ مالی اور بیرونی شعبے کی کارکردگی ٹریک پر رہنے کے ساتھ، حکومت نے آئی ایم ایف کے جاری پروگرام کا پہلا جائزہ کامیابی کے ساتھ مکمل کیا۔

بحث میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت صوبوں سے درکار اضافی رقم نے تعلیم اور صحت پر خرچ کرنے کی صلاحیت کو کم کر دیا ہے جو کہ نتیجہ خیز نہیں تھا، کیونکہ یہ دونوں شعبے انسانی ترقی کے لیے بہت اہم تھے۔

جواب میں، فنانس ڈویژن نے وضاحت کی کہ مالی نتائج کے لحاظ سے معیشت کو مجموعی طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر بجٹخسارے کے اثرات اور ان کے اثرات کے نقطہ نظر سےاور یہ کہ یہ محض وفاقی خسارہ نہیں بلکہ مجموعی خسارہ تھا جس نے معاشی نتائج کو متاثر کیا۔

فنانس ڈویژن نے یہ بھی واضح کیا کہ مختلف شعبوں میں بجٹ کے وسائل مختص کرنا صوبوں پر منحصر ہے۔ ضروری نہیں کہ اضافی رقم صحت اور تعلیم پر اخراجات میں کمی سے پیدا کی جائے اور یہ کہ صرف عوامی اخراجات کی مقدار ہی اہمیت نہیں رکھتی تھی بلکہ اس سے بھی اہم بات اس اخراجات کا معیار اہم تھا۔

Comments

Comments are closed.