فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اس وقت وزارت خزانہ کے دائرہ اختیار میں کام کرنے والا سب سے زیادہ فعال محکمہ ہے ۔آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ڈھائی ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اور فنانس ڈویژن میں پالیسی اصلاحات سے متعلق سرگرمیوں میں کمی کی اطلاع غیر معمولی بات ہے -

ایف بی آر نے حال ہی میں ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے لیے نوٹیفیکشنز کے ذریعے کئی اقدامات کیے ہیں، جس میں چھ بڑے شہروں ٹیکس آسان ایپ کے ذریعے چھوٹےکاروبار کو دستاویزی شکل دینا اور ماہانہ بنیادوں پر کم از کم ٹیکس ادائیگی شامل ہے۔

تاجروں تنظیموں نے اس قدم کا خیرمقدم کیا تھا۔ انکا مزید کہنا تھا کہ کم از کم ایڈوانس ٹیکس کی وصولی کے طریقوں کو حتمی شکل دینے کی ضرورت ہوگی۔

یہ تنقید بھی کی گئی کہ شہروں کا انتخاب سیاسی بنیادوں پر کیا گیا ہے، کیونکہ فیصل آباد، گوجرانوالہ، گجرات، ملتان اور سیالکوٹ کو اس فہرست سے باہر رکھا گیا،جہاں اقتصادی سرگرمیاں منتخب کیے گئے چھ شہروں کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔

ایف بی آر کے مطابق سکیم کے دوسرے مرحلے میں ان شہروں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ایف بھی آر نے ایک اور نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، جس کے مطابق پیشہ ور افراد کو پوائنٹ آف سیل سسٹم کے ساتھ مربوط کیا جائیگا۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی ویب سائٹ پر 20 مارچ 2024 کو جاری پریس ریلیز میں اعلان کیا گیا تھا کہ اسٹاف لیول ایگریمنٹ 9 ماہ کے اسٹینڈ بائی انتظام کے دوسرے اور آخری جائزے پر طے پایا تھا۔خاصل کر بتدریج مالی استحکام، ٹیکس بنیاد کو بڑھانے اورپائیدار قرض کے ذریعے مالی استحکام کو مضبوط بنایا جائیگا۔

ایف بی آر کے 20 مارچ کے بعد کے جاری نوٹیفیکیشن سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ یہ فیصلے آئی ایم ایف بورڈ کی پیشگی شرائط کا حصہ ہو سکتے ہیں جو کہ حتمی قسط کے اجراء کے لیے بھی ایک شرط ہے۔

مزید برآں نگران کابینہ نے ایف بی آر کی تنظیم نو اور ڈیجیٹائزیشن کی منظوری دی تھی، جس میں وزیر خزانہ کے تحت ریونیو ڈویژن میں وفاقی پالیسی بورڈ کا قیام شامل ہے، جو ٹیکس پالیسی کی تشکیل اور ٹیکس اہداف کے تعین اور اسٹیک ہولڈرز کے درمیان تعاون کا ذمہ دار ہوگا۔اس کے ساتھ ہی کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو کی سربراہی الگ الگ ان کے متعلقہ کیڈرز کے ڈائریکٹر جنرل مکمل اختیار کے ساتھ کریں گے اور ڈیجیٹلائزیشن کے معاملے میں بہترین عالمی طریقوں کے نفاذ کو یقینی بنائیں گے۔

یہ دونوں اقدامات کم از کم ایک دہائی تک زیر بحث رہے، یہ اقدامات نگرانوں کی طرف سے نہیں لئے جاسکتے تھے، جنوری کے آخر تک عوام کو بتادیا گیا تھا کہ ان اقدامات کو منتخب حکومت نافذ کرے گی۔

اگرچہ یہ اقدامات درست سمت میں ایک قدم ہیں لیکن محصولات کے ہدف پرغیر معمولی توجہ کے ساتھ بالواسطہ ٹیکسوں پر موجودہ انحصار کو تبدیل کرنے کی ضروت ہے جس کے غریبوں پر اثرات امیروں سے زیادہ ہونگے۔اس وقت جمع کیے گئے تمام براہ راست ٹیکسوں میں سے 75 سے 80 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کے نظام کے تحت ہیں کیونکہ وہ سیلز ٹیکس مد میں لگائے جا رہے ہیں۔

آئی ایم ایف کی پریس ریلیز میں مزید کہا گیا ہے کہ توانائی کے شعبے میں بہتری کیلئے لاگت میں کمی لانےاور بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا جبکہ کیپٹیو پاور ڈیمانڈ کو بجلی کے گرڈ میں منتقل کرنا، ڈسٹری بیوشن کمپنی کے نظم و نسق کو مضبوط بنانے سمیت چوری کے خلاف موثر کوششیں کرنا ہونگی۔

اس لئے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ نئے وزیر برائے بجلی اویس لغاری نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے چیئرمینوں اور چیف ایگزیکٹوز کے ساتھ ویڈیو کانفرنس کے دوران بجلی چوری سے نمٹنے پر زور دیا ہے۔بجلی چوری کیخلاف گزشتہ سال ستمبر سے اقدمات جاری ہیں،جس سے تقریباً 86 ارب روپے کی متاثر کن وصولی بھی ہوئی ہے، حالانکہ 2.3 ٹریلین روپے کے گردشی قرضے کے مقابلے میں یہ ایک بہت کم رقم ہے۔

حکومت کو بھی کچھ دیرینہ ناقص پالیسیوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔خاص طور پر ٹیرف پالیسی پر نظرثانی کی جانی چاہیے، کیونکہ اس کے لیے بڑے پیمانے پر سالانہ بجٹ میں سبسڈیز کی ضرورت ہوتی ہے جو ملک برداشت نہیں کر سکتا ، سبسڈیز نجکاری کے منصوبے کو بھی مشکل بنادیتی ہیں۔اس وجہ سے ہی کے الیکٹرک کو نجکاری کے بعد بھی بھاری سبسڈیزدی جارہی ہیں۔

حکومت آئی ایم ایف سے ایک اور پیکج حاصل کرنا چاہتی ہے،ایسے میں ترجیحی پالیسی کے نفاذ کیلئے فنانس ڈویژن میں سست روی ایک بدقسمت صورتحال ہے کیونکہ امید تھی کہ وزارت ان حالات میں آئوٹ آف بکس متبال پیش کریگی نہ کہ صرف تجزیے کرتی رہے گی۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر

Comments

Comments are closed.