بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے ہفتہ کے روز دو ماہ کے اندر پاکستان میں دوسری مرتبہ مشن بھیجا ہے تاکہ گورننس اصلاحات اور اہم سرکاری اداروں میں بدعنوانی کے خاتمے کی کوششوں کا جائزہ لیا جا سکے۔

آئی ایم ایف کا وفد رواں ہفتے ابتدائی ملاقاتوں کا آغاز کر چکا ہے، جبکہ باقاعدہ مذاکرات پیر سے شروع ہوں گے۔ مشن کا بنیادی مقصد شفافیت، گورننس اور ادارہ جاتی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کیے گئے اقدامات کا جائزہ لینا ہے۔

وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف مشن وزارت خزانہ، اسٹیٹ بینک، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، منصوبہ بندی اور نجکاری کمیشن سمیت 30 سے زائد سرکاری اداروں کے حکام سے ملاقاتیں کرے گا۔

اس کے علاوہ آڈیٹر جنرل آفس، قومی احتساب بیورو (نیب)، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا)، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے حکام سے بھی ملاقاتیں ہوں گی۔

گورننس اصلاحات کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف مشن بینکنگ، تعمیرات اور شوگر جیسے کلیدی شعبوں میں مسابقتی ماحول کا بھی تفصیلی جائزہ لے گا۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ اور احتساب عدالتوں کے رجسٹرارز سے بھی ملاقاتیں ہوں گی، تاکہ قانونی اور عدالتی اصلاحات پر بات چیت کی جا سکے۔

آئی ایم ایف مشن کی آمد حالیہ اسٹاف لیول معاہدے کے بعد ہوئی ہے، جس کے تحت پاکستان نے توسیعی فنڈ سہولت کے تحت ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کی ہے، جو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔

معاہدے میں 1.3 ارب ڈالر کی نئی امداد بھی شامل ہے، جو ریسیلینس اینڈ سسٹین ایبلیٹی فیسلٹی (آر ایس ایف) کے تحت فراہم کی جائے گی، یوں مجموعی پیکیج 2.3 ارب ڈالر پر مشتمل ہوگا۔

آئی ایم ایف نے اپنے بیان میں پاکستان کی معاشی استحکام کی کوششوں کو سراہا ہے، جن میں مالی نظم و ضبط، مہنگائی میں کمی، اور بیرونی توازن میں بہتری شامل ہے، حالانکہ عالمی اقتصادی دباؤ اب بھی موجود ہے۔ تاہم، آئی ایم ایف نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ جغرافیائی سیاسی کشیدگی، اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، اور ماحولیاتی چیلنجز پاکستان کی معاشی بحالی کے لیے خطرات بنے ہوئے ہیں۔

آئی ایم ایف نے ساختی اصلاحات، بالخصوص ٹیکس، توانائی اور گورننس کے شعبوں میں، جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ آئی ایم ایف نے زرعی آمدن پر مؤثر ٹیکس کے نفاذ سمیت ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کی اہمیت اجاگر کی، جبکہ توانائی شعبے کی سبسڈی کو بتدریج ختم کرنے کی ہدایت بھی دی۔

اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف نے مالیاتی پالیسی کو سخت کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ درمیانی مدت میں مہنگائی کو 5 سے 7 فیصد کی حد میں رکھا جا سکے۔

پاکستانی حکومت نے مالیاتی نظم و ضبط برقرار رکھنے اور ساختی اصلاحات کو آگے بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے، جن میں ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا اور توانائی شعبے کی کمزوریوں کو کم کرنا شامل ہے۔

اگرچہ آئی ایم ایف نے حکومت پر مالیاتی اور توانائی اصلاحات کے ضمن میں مشکل فیصلے لینے پر زور دیا ہے، لیکن اس نے حکومت کی جانب سے سماجی فلاحی پروگراموں، بالخصوص بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی)، کے تحفظ کے عزم کو بھی سراہا ہے۔ حکومت نے صحت، تعلیم اور موسمیاتی تحفظ سے متعلق منصوبوں پر ترجیحی بنیادوں پر اخراجات جاری رکھنے کا وعدہ کیا ہے تاکہ طویل المدتی سماجی و معاشی استحکام یقینی بنایا جا سکے۔

آئی ایم ایف کا وفد آئندہ ہفتوں میں اپنی مشاورت جاری رکھے گا، اس امید کے ساتھ کہ حکومت توانائی کے شعبے میں اہم اصلاحات پر عملدرآمد کے لیے رفتار برقرار رکھے گی، جن میں ٹیرف ایڈجسٹمنٹس کے ذریعے گردشی قرضوں کا حل اور مجموعی کارکردگی میں بہتری شامل ہے۔

Comments

200 حروف