2024 ورلڈ ایئر کوالٹی رپورٹ پاکستان میں فضائی معیار کی ایک سنگین اور تشویشناک تصویر پیش کرتی ہے، جو ملک کو دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ ممالک میں شامل کرتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق، پاکستان دنیا کا تیسرا سب سے زیادہ آلودہ ملک ہے، جبکہ اسلام آباد کو دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آلودہ دارالحکومت قرار دیا گیا ہے۔ یہ نتائج ایک سنگین ماحولیاتی اور صحت عامہ کے بحران کو نمایاں کرتے ہیں، جس کے لیے فوری اور مستقل اقدامات کی ضرورت ہے۔

”اسٹیٹ آف گلوبل ایئر (ایس او جی اے) 2024“ رپورٹ مزید اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ پاکستان میں فضائی آلودگی کے شدید صحت عامہ پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، صرف 2021 میں فضائی آلودگی سے منسلک اموات کی تعداد 2,56,000 تک جا پہنچی۔ خاص طور پر، پانچ سال سے کم عمر بچوں پر اس آلودگی کے تباہ کن اثرات دیکھنے میں آئے، جہاں اس کمزور عمر کے گروپ میں 68,100 اموات فضائی آلودگی کی وجہ سے ہوئیں۔

رپورٹ میں شہروں کے مخصوص فضائی آلودگی کے اعداد و شمار بھی درج کیے گئے ہیں، جن میں لاہور کی تشویشناک حالت کا ذکر کیا گیا ہے۔ لاہور نے چھ سالوں میں پہلی بار سالانہ اوسط پی ایم 2.5 کی حد 100 µg/m³ سے تجاوز کر دی، جو ایک خطرناک سنگ میل ہے۔ اسلام آباد، فیصل آباد، راولپنڈی، اور پشاور میں بھی فضائی آلودگی کی سطح میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا، جو شہروں میں فضائی معیار کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔ سردیوں کے موسم میں یہ شدت مزید بڑھ جاتی ہے، جس کی بنیادی وجوہات زرعی باقیات کو جلانے، درجہ حرارت بدل جانے (ٹمپریچر انورژن)، اور ثقافتی تقریبات کے دوران ہونے والی سرگرمیاں ہیں، جو پہلے سے موجود شدید آلودگی کی سطح کو مزید بڑھا دیتی ہیں۔

پاکستان میں پی ایم 2.5 ذرات کا ایک بڑا آلودہ عنصر ہونے کا انکشاف رپورٹ میں کیا گیا ہے، جو کہ فضائی آلودگی کے کثیر الجہتی چیلنج کو نمایاں کرتا ہے۔ اس آلودگی کے ذرائع میں گاڑیوں کے دھوئیں، صنعتی سرگرمیاں، اور گھریلو سطح پر لکڑی اور کوئلے جیسے ٹھوس ایندھن سے کھانا پکانے کے طریقے شامل ہیں۔ گھریلو فضائی آلودگی خاص طور پر نچلی آمدنی والے طبقات میں ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے، جو کم عمر بچوں اور بزرگ افراد کی صحت کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔

رپورٹ میں نہ صرف ان مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے بلکہ ممکنہ حل بھی تجویز کیے گئے ہیں، جیسے کہ فضائی معیار کی نگرانی کے نظام کو وسعت دینا، سخت اخراج معیارات (ایمیشن اسٹینڈرڈز) کو نافذ کرنا، صنعتوں میں صاف ٹیکنالوجی کے فروغ کو یقینی بنانا، اور توانائی کے لیے متبادل ذرائع جیسے قابل تجدید توانائی کو اپنانا۔ تاہم، ان حلوں پر عمل درآمد کے لیے درپیش ساختی رکاوٹوں پر رپورٹ میں زیادہ گہرائی سے روشنی نہیں ڈالی گئی۔ مثال کے طور پر، حکومتی پالیسیاں اکثر ناقص نفاذ، کرپشن، اور سیاسی عزم کی کمی کی وجہ سے ناکام ہو جاتی ہیں، خاص طور پر جب معاملہ طاقتور صنعتی اور زرعی گروپوں کے خلاف سخت اقدامات لینے کا ہو۔

رپورٹ میں کمیونٹی کی سطح پر فضائی معیار کی نگرانی کی چند کوششوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے، مگر اس بات کو کم اہمیت دی گئی ہے کہ ان مقامی کوششوں کو حکومت کے ساتھ باضابطہ طور پر کس طرح مربوط کیا جائے۔ پاکستان جیسے محدود وسائل والے ملک میں، مقامی سطح پر عوامی شراکت داری نہ صرف ڈیٹا اکٹھا کرنے کے عمل کو بہتر بنا سکتی ہے بلکہ اس سے عوام میں ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے ملکیت کا احساس بھی پیدا ہو سکتا ہے، جو مؤثر مقامی مہمات کے فروغ کا سبب بن سکتا ہے۔

 ۔
۔

علاوہ ازیں، رپورٹ میں تجویز کردہ حل جامع ہونے کے باوجود، انہیں مقامی اقتصادی حقائق کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ صنعتوں اور زراعت کو صاف ستھری پریکٹسز اپنانے پر مجبور کرنا ایک بڑا مالیاتی بوجھ اور انفراسٹرکچرل سرمایہ کاری کا تقاضا کرتا ہے، جس کے لیے بین الاقوامی مدد اور مقامی حکومتی مراعات کی ضرورت ہو گی۔ رپورٹ میں ان پہلوؤں کو مزید تفصیل سے بیان کیا جا سکتا تھا تاکہ وسائل کی قلت والے ممالک جیسے پاکستان کے لیے حقیقت پسندانہ اور قابل عمل طریقے وضع کیے جا سکیں۔

ایس او جی اے 2024 رپورٹ نے پاکستان کو ایک وسیع تر علاقائی تناظر میں رکھا ہے، جہاں یہ ملک اپنے جنوبی ایشیائی ہمسایہ ممالک بھارت اور بنگلہ دیش کے ساتھ فضائی آلودگی کے بحران میں شریک ہے، مگر پاکستان میں اس کا اثر اس قدر شدید ہے کہ فوری اور جامع اقدامات کی ضرورت ناگزیر ہو گئی ہے۔ مجموعی طور پر، ایس او جی اے 2024 اور 2024 ورلڈ ایئر کوالٹی رپورٹ اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ پاکستان میں فضائی آلودگی محض ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سنگین صحت عامہ کا بحران ہے، جس کے لیے ہدفی، مؤثر، اور پائیدار حل درکار ہیں۔ فضائی آلودگی کے بنیادی اسباب سے نمٹنے کے لیے ایک مزید جامع نقطہ نظر اختیار کرنے کی ضرورت ہے، جس میں مقامی طرز حکمرانی، اقتصادی رکاوٹوں، اور کمیونٹی اور حکومت کے مابین مضبوط تر اشتراک کو مدنظر رکھا جائے۔

Comments

200 حروف