دفتر خارجہ نے جمعرات کو امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستانی حکام کے خلاف پابندیوں کے لیے پیش کیے گئے 2 جماعتی بل کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور اسے ایک فرد کی جانب سے اٹھایا گیا اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ واشنگٹن کے سرکاری موقف کی عکاسی نہیں کرتا۔

یہ جواب پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ اور پاکستانی شہریوں کے اسرائیل کے دورے سے متعلق سوالات کے بعد سامنے آیا، جسے دفتر خارجہ نے موجودہ قوانین کے تحت ’تکنیکی طور پر ناممکن‘ قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کر دیا۔

اسلام آباد میں ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان سے ان معاملات کے بارے میں پوچھا گیا۔

مجوزہ امریکی بل کا ذکر کرتے ہوئے، جس میں مبینہ طور پر جمہوری اور انسانی حقوق کے خدشات پر پاکستانی حکام کو نشانہ بنایا گیا ہے، دفتر خارجہ کے ترجمان نے زور دیا کہ یہ قانون سازی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی ”مثبت تعلقات“ کے منافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایوان نمائندگان میں پیش کیے جانے والے بل سے آگاہ ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ یہ ایک واحد رکن اسمبلی کا اقدام ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ اس بل کا وقت اور سیاق و سباق پاکستان-امریکہ دوطرفہ تعلقات کی موجودہ مثبت حرکیات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے، جو باہمی احترام، سمجھوتے اور ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے پر مبنی ہیں۔

ترجمان نے مزید کہا کہ اس بل کو قانون بننے سے پہلے کانگریس کی کئی کمیٹیوں سے منظور ہونا ہوگا اور امید ظاہر کی کہ امریکی کانگریس اس کے بجائے دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کرے گی۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان آئینی اصولوں، قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق کے تحفظ اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے پرعزم ہے، کیونکہ یہ جمہوریت کو قوم کی خوشحالی اور ترقی کے لیے ایک ذریعے کے طور پر دیکھتا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی کی واشنگٹن میں حالیہ مصروفیات کا بھی ذکر کیا جہاں انہوں نے ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین اور پاکستان کاکس کے ارکان سمیت اہم امریکی قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں۔

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات میں پاک امریکا دوطرفہ تعاون اور اقتصادی تعلقات پر تبادلہ خیال کیا گیا، فاطمی نے امریکی حکام کو پاکستان کی معاشی ترجیحات اور علاقائی پالیسیوں سے آگاہ کیا۔

پاکستانی صحافیوں کے اسرائیل جانے کی خبروں کے جواب میں دفتر خارجہ نے واضح طور پر کہا کہ پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر نہیں کیا جاسکتا اور اس وجہ سے موجودہ قوانین کے تحت اس طرح کے دورے ناممکن ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کا موقف تبدیل ہوئے بغیر برقرار ہے۔ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی پرزور حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے اسلام آباد کے اس عزم کو دہرایا کہ فلسطین کے لیے 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر ایک آزاد ریاست کے حق میں ہیں جس کا دارالحکومت مشرقی مقبوضہ بیت المقدس ہو۔

دفترِ خارجہ نے ان ماضی کے واقعات کا اعتراف کیا جہاں دوہری شہریت رکھنے والے افراد نے دوسرے پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کیا، لیکن یہ واضح کیا کہ پاکستان کے قوانین کے تحت ایسے دورے کی اجازت نہیں ہے۔

ترجمان نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ہم نے رپورٹس دیکھی ہیں کہ دوہری شہریت رکھنے والے افراد نے دوسرے پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کیا، لیکن پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے معاملات کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

Comments

200 حروف