کاروں کی فروخت میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی ’پریمیم‘ بھی بڑھ رہے ہیں۔ مقامی طور پر ’اون منی‘ کے نام سے جانی جانے والی یہ رقم وہ اضافی ادائیگی ہے جو خریدار ڈیلرز اور سرمایہ کاروں کو فوری ڈلیوری کے لیے کرتے ہیں۔ یہ منفرد طریقہ اس لیے اپنایا جاتا ہے کیونکہ اوریجنل ایکوپمنٹ مینوفیکچررز (او ای ایمز) اپنی سپلائی چین، پیداواری صلاحیت، اور شاید سپلائی کو محدود کر کے مصنوعی قلت پیدا کرنے کے لیے، گاڑیوں کی ترسیل میں چھ ماہ تک کی تاخیر کرتے ہیں۔
صارفین کے لیے قیمت کی کوئی ضمانت نہیں۔ اگر انتظار کے دوران او ای ایمز گاڑی کی قیمت میں اضافہ کر دیں یا ٹیکس بڑھا دیے جائیں، تو پہلے سے بک کروائی گئی گاڑیوں کے خریداروں کو اضافی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ اس غیر یقینی صورتحال سے بچنے اور اضافی رقم اکٹھا کرنے کی پریشانی سے بچنے کے لیے، بہت سے خریدار فوری ڈلیوری حاصل کرنے کے لیے اضافی ’اون منی‘ دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس پریمیم کی قیاس آرائی پر مبنی نوعیت کی وجہ سے، یہ موجودہ طلب کا پیمانہ بھی ہو سکتا ہے: جتنا زیادہ ’اون‘ ہوگا، اتنی ہی زیادہ اس ماڈل کی مانگ ہوگی۔ اس وقت، آلٹو—جو بلاشبہ مارکیٹ میں سب سے زیادہ مقبول گاڑی ہے—پر موجودہ ’اون‘ 1,60,000 روپے ہے۔ دیگر زیادہ مہنگی اور مقبول گاڑیوں پر یہ رقم اس سے بھی زیادہ ہے۔
اور لوگ یہ ادائیگی کر بھی رہے ہیں۔ مالی سال 2025 کے پہلے آٹھ مہینوں میں آلٹو کی فروخت میں 43 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کار شو رومز پچھلے سال کے مقابلے میں زیادہ مصروف ہیں اور سوزوکی کی فیکٹریاں دیگر او ای ایمز کے تیار کردہ ماڈلز کے مقابلے میں آلٹو کو زیادہ تعداد میں تیار کر رہی ہیں۔ سیاق و سباق کے لیے، ملک میں تیار کی جانے والی تمام مسافر کاروں میں سے 42 فیصد آلٹو ہیں، جبکہ ایس یو ویز اور ایل سی ویز کا تناسب 31 فیصد ہے۔ اگر سوزوکی کے پاس زیادہ پیداواری صلاحیت ہوتی، یا وہ گاڑیاں طلب کے مطابق تیار کر رہا ہوتا، تو سرمایہ کاروں اور موقع پرستوں کی جانب سے کیش میں لین دین کے ذریعے اس مصنوعی بلیک مارکیٹ کا وجود ہی نہ ہوتا۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کی ایک تحقیق کے مطابق، 2018 سے 2022 کے درمیان، 150 سے 170 ارب روپے کی ’اون منی‘ ادا کی گئی، یعنی سالانہ تقریباً 35 ارب روپے۔ مالی سال 2018 میں، تین بڑے او ای ایمز—انڈس موٹرز، پاکستان سوزوکی، اور ہونڈا—نے مشترکہ طور پر 23 ارب روپے بعد از ٹیکس منافع کمایا، جو ’اون منی‘ سے کم تھا۔ سوال یہ ہے کہ یہ کمپنیاں اس مصنوعی مارکیٹ کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھا رہیں؟
اگرچہ سوزوکی جیسے کچھ او ای ایمز منافع کے مسائل سے دوچار ہیں، مجموعی طور پر یہ صنعت ایک ایسے نظام سے فائدہ اٹھاتی ہے جہاں قلت کو جواز بنا کر زیادہ ’اون‘ لیا جاتا ہے۔ اصل فائدہ سرمایہ کاروں، ڈیلرز اور اسمبلرز کو ہوتا ہے جو سپلائی کو کنٹرول کر کے قیمتوں اور مارکیٹ کے رجحانات پر اپنی گرفت مضبوط رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ’اون منی‘ صرف طلب کی وجہ سے نہیں بلکہ دیگر عوامل سے بھی متاثر ہوتی ہے۔ او ای ایمز جان بوجھ کر کم پیداوار رکھتے ہیں تاکہ طلب میں دباؤ برقرار رکھا جا سکے۔ کم پیداواری صلاحیت پر کام کر کے وہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور زیادہ منافع برقرار رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
انڈس موٹرز کی حکمت عملی اس معاملے پر مزید روشنی ڈالتی ہے۔ ایک طرف تو یہ کمپنی، طلب میں کمی کے دوران بھی، پاکستانی سڑکوں کے لیے موزوں گاڑیوں کی بہترین رینج متعارف کروا کر کامیابی سے کام کر رہی ہے۔ دوسری طرف، ایک سستی سیڈان، ایک اعلیٰ کارکردگی والی سیڈان کی لائن، اور ایک مکمل ایس یو وی جو اپنی الگ مارکیٹ بنا چکی ہے، اس کی پیشکش پاکستانی صارفین کے لیے نہایت موزوں ثابت ہو رہی ہے۔
جسٹ اِن ٹائم سپلائی چین ماڈل کے تحت، کمپنی پہلے بکنگ لیتی ہے اور پھر سی کے ڈی کے درآمدی آرڈر دیتی ہے۔ اس دوران، بکنگ سے حاصل شدہ کیش ایڈوانسز کو سود دینے والے اکاؤنٹس میں رکھا جاتا ہے، جو ’دیگر آمدنی‘ میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ ایک چالاک سرمایہ کاری ہے کیونکہ انڈس موٹرز کی دیگر آمدنی 2015 سے 2024 کے درمیان مجموعی آمدنی کے 3 فیصد سے بڑھ کر 9 فیصد ہو چکی ہے۔ قبل از ٹیکس آمدنی کے تناسب سے، یہ شرح اور بھی زیادہ ہے—مالی سال 2023 میں، کمپنی کی 89 فیصد آمدنی ’دیگر آمدنی‘ سے آ رہی تھی۔ یعنی جب تک انڈس موٹرز گاڑی ’ڈیلیور‘ کرتی ہے، وہ پری بکنگ پر سود حاصل کر رہی ہوتی ہے۔
یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ جب تھری ایس ڈیلرز اور سرمایہ کار ایک ساتھ متعدد بکنگ کرتے ہیں تو یہ دراصل او ای ایمز کے لیے مالی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے، نہ کہ ان کے کاروبار کے لیے نقصان دہ۔ ڈیلرز او ای ایمز کو مستحکم طلب اور یقینی فروخت فراہم کرتے ہیں۔ دوسری طرف، جب طلب کم ہوتی ہے تو ڈیلرز اور سرمایہ کار غیر فروخت شدہ اسٹاک کو سنبھالنے کے مارکیٹ رسک کا سامنا کرتے ہیں، جبکہ او ای ایمز کو پھر بھی اپنا منافع ملتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب طلب کم بھی ہو تو گاڑیوں کی ڈیلیوری کا وقت کم نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ او ای ایمز بس اپنی پیداوار کم کر دیتے ہیں اور سرمایہ کاروں/ڈیلرز کے ماڈل پر کام جاری رکھتے ہیں، اور بالواسطہ طور پر ان کی سرگرمیوں کو جائز حیثیت دے دیتے ہیں۔
اگرچہ یہ ایک غیر رسمی کاروباری عمل ہے، لیکن اس میں اصل نقصان صارف کا ہوتا ہے۔ سرمایہ کار کچھ کیے بغیر منافع کماتے ہیں۔ وہ گاڑیاں پہلے سے بک کروا کر انہیں آگے بیچتے ہیں اور ایک کنٹرول شدہ قلت پیدا کرتے ہیں، جس سے مارکیٹ قیاس آرائی پر مبنی کاروبار میں بدل جاتی ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ غیر قانونی کاروبار پاکستان میں پلاٹ ٹریڈنگ سے بھی زیادہ منافع بخش ہے۔ طویل ڈیلیوری اوقات جو مصنوعی قلت کا سبب بنتے ہیں، او ای ایمز کے لیے مستقبل میں قیمتیں بڑھانے کا جواز بھی فراہم کرتے ہیں۔
ریگولیٹرز کے لیے، ’اون منی‘ پر قابو پانا منطقی ہونا چاہیے، کیونکہ یہ لین دین سرکاری اعداد و شمار میں شامل نہیں، بلکہ غیر دستاویزی اور غیر ٹیکس شدہ ہیں۔ دیگر معیشتوں میں، قیمتوں کا تعین زیادہ شفاف اور دستاویزی ہوتا ہے، جہاں او ای ایمز کم از کم قیمت مقرر کرتے ہیں اور ڈیلرز صارفین سے سروس فیس لیتے ہیں۔ قیاس آرائی پر مبنی تجارت کے بجائے، جو صرف تاجروں کے مفاد میں ہوتی ہے، یہ طریقہ مارکیٹ میں مسابقت پیدا کرتا ہے، جہاں صارفین مختلف پیشکشوں کا موازنہ کر کے بہتر معاہدے حاصل کر سکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ’اون منی‘ صرف اسی صورت میں ختم ہو گی جب طلب اور رسد کا فرق کم ہو اور انتظار کا وقت گھٹ جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ او ای ایمز اپنی پیداوار کو حقیقی مارکیٹ طلب کے مطابق ترتیب دیں—لیکن یہ ان کے مفاد میں نہیں۔ ریگولیٹرز کو سخت اصلاحات متعارف کرانی چاہئیں: قیمتوں کی شفافیت کو لازمی قرار دینا، سخت ڈیلیوری ٹائم لائنز نافذ کرنا، اور تاخیر پر موثر جرمانے عائد کرنا ضروری ہے۔ موجودہ جرمانے بے اثر ہیں۔ مصنوعی طور پر برقرار رکھی گئی قلت کے خاتمے کے لیے، نئی اور استعمال شدہ کاروں کی کنٹرولڈ درآمدات کی اجازت دی جانی چاہیے، تاکہ مسابقت بڑھے اور او ای ایمز کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر مجبور کیا جا سکے۔
ساتھ ہی، صارفین کے تحفظ کے قوانین او ای ایمز اور ڈیلرز کو قیمتوں کی شفافیت اور ڈیلیوری کی یقین دہانی کے حوالے سے جوابدہ بنائیں، تاکہ مارکیٹ صارفین کے مفاد میں کام کرے—صرف سرمایہ کاروں اور مڈل مین کیلئے نہیں۔
Comments