وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ ابھرتی ہوئی معیشتوں، خصوصاً پاکستان جیسے ممالک میں قرض بحران سے بہتر طور پر نمٹا جاسکے۔

چین میں باؤ فورم برائے ایشیا کی سالانہ کانفرنس 2025 میں ایک اعلیٰ سطح اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے گردشی قرضوں کے بحران کو روکنے کے لئے خودمختار قرضوں کے میکانزم کی تنظیم نو کے ذریعے قرضوں میں ریلیف اور مالیاتی انصاف کی ضرورت پر زور دیا۔

فنانس ڈویژن کی جانب سے جاری بیان کے مطابق انہوں نے کہا کہ قرضوں کے بحران کئی ابھرتی ہوئی معیشتوں، بشمول پاکستان کی اقتصادی ترقی میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔

محمد اورنگزیب نے نشاندہی کی کہ عالمی قرضہ 100 کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، جبکہ 60 فیصد سے زائد کم آمدنی والے ممالک قرض کے بحران کے خطرے سے دوچار ہیں۔ انہوں نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں اصلاحات کا مطالبہ کیا تاکہ ترقی پذیر معیشتوں کو زیادہ مالی لچک اور پائیدار قرض ریلیف کے مواقع فراہم کیے جا سکیں۔

انہوں نے عالمی مالیاتی ڈھانچے میں اصلاحات کا بھی مطالبہ کیا جن میں خصوصی ڈرائنگ رائٹس (ایس ڈی آرز) کے کوٹے میں اضافہ، گرین بانڈز کے فروغ اور مخلوط مالیاتی ماڈلز کو شامل کرنا شامل ہے تاکہ ابھرتی ہوئی منڈیوں میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو راغب کیا جاسکے۔

عالمی معاشی نظام میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کو اجاگر کرتے ہوئے محمد اورنگزیب نے نوٹ کیا کہ گلوبلائزیشن بنیادی طور پر غیر مساوی ہے، جو ترقی یافتہ معیشتوں کو غیر متناسب فائدہ پہنچاتی ہے جبکہ گلوبل ساؤتھ کو حاشیے پر دھکیلتی ہے۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح، گلوبلائزیشن کے ایک زیادہ متوازن ماڈل کا حامی ہے— ایسا ماڈل جو منصفانہ تجارت، پائیدار ترقی اور مساوی مالیاتی نظام کو فروغ دے۔ یہ ماڈل کثیرالجہتی، جدت پر مبنی اور جامع ہونا چاہیے تاکہ تمام خطوں میں ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکے۔

وزیر خزانہ نے نوٹ کیا کہ دولت اور مواقع میں بڑھتا ہوا فرق جامع گلوبلائزیشن کے اہم چیلنجز میں شامل ہے۔

”ترقی یافتہ ممالک ہائی ٹیک شعبوں، ڈیجیٹل تجارت اور وسیع مالی رسائی سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں، جبکہ ترقی پذیر ممالک کو بلند تجارتی محصولات، محدود سرمایہ کاری پالیسیوں اور ناکافی بنیادی ڈھانچے کی وجہ سے رکاوٹوں کا سامنا ہے۔“

انہوں نے کہا کہ اس کے جواب میں پاکستان نے ہمیشہ زیادہ علاقائی رابطے، منصفانہ مارکیٹ تک رسائی اور مضبوط کثیر الجہتی تعاون کا مطالبہ کیا ہے، اور چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اور اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) جیسے اقدامات کو درست سمت میں اٹھائے گئے قدم قرار دیا ہے۔

محمد اورنگ زیب نے اپنے خطاب کے دوران ترقی پذیر ممالک کے درمیان ایک عالمی اتحاد کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ اجتماعی طور پر منصفانہ تجارتی قواعد اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں زیادہ نمائندگی کا مطالبہ کیا جاسکے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان کے ٹیکسٹائل اور زرعی شعبے ترقی یافتہ ممالک کی تحفظ پسند انہ پالیسیوں اور نان ٹیرف رکاوٹوں کی وجہ سے نمایاں چیلنجز کا سامنا کررہے ہیں جو انہیں مغربی منڈیوں تک رسائی سے محدود کرتی ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے محمد اورنگزیب نے اس بات پر زور دیا کہ ترقی پذیر ممالک عالمی کاربن اخراج میں 10 فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتے ہیں لیکن ماحولیاتی آفات کے اثرات کا غیر متناسب طور پر سامنا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان جو عالمی کاربن اخراج میں 1 فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے، دنیا کے سب سے زیادہ ماحولیاتی خطرات سے دوچار ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان ترقی پذیر معیشتوں میں ماحولیاتی مزاحمت کو تقویت دینے کے لیے فوری ماحولیاتی مالی معاونت، سبز ٹیکنالوجی کی منتقلی اور منصفانہ عالمی ماحولیاتی پالیسیوں کے لیے مسلسل آواز بلند کر رہا ہے۔

محمد اورنگزیب نے ترقی یافتہ ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے سالانہ 100 ارب ڈالر کے ماحولیاتی مالی معاونت کے وعدے پورے کریں اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کو کم کاربن اقتصادی نظام کی طرف منتقل کرنے میں مدد دینے کے لیے قابل تجدید توانائی کے تعاون کو ترجیح دیں۔

Comments

200 حروف