وفاقی کابینہ نے جمعہ کو وفاقی وزراء، وزرائے مملکت اور مشیروں کی تنخواہوں میں 188 فیصد اضافے کی منظوری دے دی۔
یہ فیصلہ وزیرِاعظم شہباز شریف کی جانب سے گزشتہ ماہ کابینہ کی تعداد 21 سے بڑھا کر 55 کرنے کے بعد کیا گیا ہے جس میں اب 30 وفاقی وزراء، 9 وزرائے مملکت، 4 مشیر،4 خصوصی معاونین اور 8 وزیرِاعظم کے معاونینِ خصوصی شامل ہیں۔
تشویش ہے کہ بعض وزارتوں میں ایک سے زائد افراد کی تقرری، جو مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں، فیصلوں میں رکاوٹ اور انتشار پیدا کر سکتی ہے۔
اس کی مثال وزارت داخلہ میں دیکھی جاسکتی ہے جہاں محسن نقوی وزیر داخلہ، طلال چوہدری وزیر مملکت برائے داخلہ اور پرویز خٹک وزیرِاعظم کے مشیر برائے داخلہ مقرر کیے گئے ہیں۔
تاہم سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ دراصل اُن لوگوں کو نوازنے کی پالیسی کا حصہ ہے جنہوں نے حکومت کی حمایت کی۔
کابینہ کے کئی ارکان نہ تو منتخب اراکینِ پارلیمنٹ ہیں اور نہ ہی پارٹی قیادت کے ذریعے سینیٹ کے لیے چُنے گئے ہیں۔ تاہم، یہ قابلِ ذکر ہے کہ کابینہ ارکان کی تنخواہوں میں اضافہ اُس 200 فیصد اضافے کے علاوہ ہوگا، جو فروری 2025 میں قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کیے گئے ”اراکینِ پارلیمنٹ (تنخواہیں اور مراعات) ترمیمی بل 2025“ کے تحت کیا گیا۔ اس اضافے کو یہ جواز دیا گیا کہ اراکینِ پارلیمنٹ کی تنخواہیں وفاقی سیکریٹریوں کے برابر، یعنی 5 لاکھ 19 ہزار روپے ماہانہ کی جائیں۔
یہ فیصلے جب ملک کی مالی حالت انتہائی تنگ ہے اور غیر حقیقی محصولات کے اہداف واضح ہیں — یعنی رواں سال گزشتہ سال کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ٹیکس وصولی کا ہدف رکھا گیا ہے— تشویشناک ہیں۔ اس کے علاوہ معاشی ترقی بھی سخت مالیاتی پالیسیوں کی زد میں ہے، جو حکام آئی ایم ایف کی منظوری سے نافذ کررہے ہیں۔
اس سے واضح نتیجہ نکلتا ہے کہ عوامی نمائندوں اور کابینہ ارکان کی تنخواہوں میں اتنا بڑا اضافہ کرنا بالکل مناسب وقت نہیں تھا، خاص طور پر جب ان کی اوسط آمدنی پہلے ہی پاکستان کے صرف 5 فیصد امیر ترین افراد کے برابر ہے۔
اور اگر ملک میں موجودہ 44 فیصد غربت کی شرح کو بھی مدنظر رکھا جائے تو یہ حیران کن ہے کہ عوامی نمائندے عوام کی مشکلات سے کتنے بے پرواہ نظر آتے ہیں۔
یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ان غیر منطقی فیصلوں کی وجہ سے ہی آئی ایم ایف نے وزیرِاعظم کو 23 مارچ کو ٹیرف میں کمی کے اعلان کی اجازت دینے سے انکار کیا؟ وزیرِاعظم نے 15 مارچ کو، آئی ایم ایف وفد کی روانگی کے اگلے ہی روز، ایک پریس ریلیز میں یہ وعدہ کیا تھا، جبکہ یہ وفد جاری پروگرام کے پہلے جائزے کے بعد کسی اسٹاف لیول معاہدے تک پہنچے بغیر واپس چلا گیا، جو قسط کی ادائیگی کے لیے ضروری تھا۔
وزیرِاعظم کے بیان میں کہا گیا کہ “تیل کی قیمتوں میں رد و بدل اور دیگر مالیاتی اقدامات سے پیدا ہونے والی گنجائش کو احتیاط سے استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ ایک مؤثر ریلیف پیکیج تیار کیا جا سکے۔
تنخواہوں میں اضافہ اور کابینہ کی تعداد دُگنی کرنا سالانہ بجٹ کے مجموعی 18.877 کھرب روپے میں ایک چھوٹا حصہ ہوگا لیکن عوام میں شدید غصہ پایا جاتا ہے کیونکہ ایسے اقدامات عوامی مسائل سے مکمل لاتعلقی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments