پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے چینی کی صورتحال کی رپورٹ پیش نہ کرنے پر سیکریٹری صنعت و پیداوار، کامرس اور فوڈ سیکیورٹی کو طلب کرلیا۔

جنید اکبر کی زیر صدارت کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں سال 23-2022 کے لیے تخصیص اکاؤنٹس، سال 24-2023 کی آڈٹ رپورٹ اور اسپیشل آڈٹ رپورٹ/پرفارمنس آڈٹ رپورٹ، فرانزک آڈٹ رپورٹ، اسپیشل اسٹڈی رپورٹ اور وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس کی سال 24-2023 کی سیکٹرل آڈٹ رپورٹ کا جائزہ لیا گیا۔

کمیٹی کے اجلاس کے دوران چیئرمین کمیٹی نے صحافیوں کو بتایا کہ کمیٹی نے ملک میں چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ذمہ دار تینوں وزارتوں کو جواب دینے کے لیے لکھا تھا تاہم کسی نے بھی کمیٹی کو جواب نہیں دیا۔

جنوری 2025 کے بعد سے خوردہ چینی کی قیمتوں میں ایک بار پھر غیر معمولی اور تیزی سے اضافہ ہوا ہے جو 130 روپے فی کلو سے بڑھ کر 180 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔

جاری کرشنگ سیزن اور انڈسٹری کے اس عزم کے باوجود کہ گزشتہ سال اپنے اضافی اسٹاک کو برآمد کرنے کی اجازت کے بدلے ریٹیل نرخوں کو 140 سے 145 روپے سے زیادہ نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔

گزشتہ ہفتے مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) نے اعلان کیا تھا کہ وہ چینی کے بحران پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور خبردار کیا تھا کہ اگر مسابقت مخالف رویے کا پتہ چلتا ہے تو ممکنہ نفاذ اور پالیسی مداخلت کی جائے گی۔

سی سی پی چینی کی صنعت میں کارٹیلائزیشن کو فعال طور پر حل کر رہی ہے، منصفانہ مسابقت کو یقینی بنانے اور صارفین کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔

سال 2020 میں کمیشن نے شوگر سیکٹر میں انکوائری کا آغاز کیا، جس میں اس بات کے شواہد سامنے آئے کہ شوگر ملز ممکنہ طور پر پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) کی سربراہی میں مربوط کوششوں کے ذریعے قیمتوں کے تعین اور سپلائی کو کنٹرول کرنے میں ملوث تھیں۔

تحقیقات کے سلسلے میں سی سی پی نے پی ایس ایم اے کے دفاتر پر چھاپے مارے۔

اس وقت شوگر کارٹیلائزیشن سے متعلق 127 مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔

ان میں سپریم کورٹ میں 24، لاہور ہائی کورٹ میں 25، سندھ ہائی کورٹ میں 6 اور مسابقتی اپیلٹ ٹریبونل میں 72 مقدمات شامل ہیں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف