پاکستان کی معیشت بدستور جمود کا شکار ہے، ساختی خرابیاں اور پالیسی کی ناکامیوں ترقی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

حال ہی میں وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی جانب سے معاشی ترقی میں بڑی رکاوٹوں کی نشاندہی سے ایک دیرینہ حقیقت اجاگر ہوئی ہے، جب تک اصلاحات نہیں کی جاتیں اور برآمدات پر اسٹریٹجک توجہ نہیں دی جاتی، ملک کی معاشی سمت غیر مستحکم رہے گی۔

یہ تشخیص کوئی نئی بات نہیں۔ زیادہ مالی خسارہ، محدود ٹیکس نیٹ، اور توانائی کی قلت طویل عرصے سے سنگین مسائل بنے ہوئے ہیں۔ وزیر منصوبہ بندی کی جانب سے ان عوامل کو تسلیم کرنا خوش آئند ہے، لیکن یہ محض سطح کو چھونے کے مترادف ہے۔ پاکستان کو اب محض تسلیم کرنے کی نہیں بلکہ ٹھوس عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

ایک بڑی رکاوٹ ملک کی مایوس کن برآمدی کارکردگی ہے۔ گزشتہ دہائی میں، پاکستان کی برآمدات کا جی ڈی پی کے تناسب سے حصہ خطرناک حد تک کم ہو چکا ہے۔ کم قدر والے ٹیکسٹائل اور محدود تنوع پر انحصار نے معیشت کو بیرونی جھٹکوں اور کرنسی کے اتار چڑھاؤ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اس رجحان کو تبدیل کرنے کے لیے، پالیسی سازوں کو ویلیو ایڈڈ مینوفیکچرنگ اور ٹیکنالوجی پر مبنی شعبوں کو فروغ دینا ہوگا۔ ویتنام اور بنگلہ دیش جیسے ممالک نے عالمی سپلائی چین ڈائنامکس سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ پاکستان کو بھی کاروبار میں آسانی بڑھانے، کسٹمز کے طریقہ کار کو آسان بنانے اور برآمد کنندگان کو مخصوص سبسڈیز فراہم کرکے اسی راستے پر چلنا ہوگا۔

مزید برآں، توانائی کا بحران صنعتی پیداوار کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ زیادہ توانائی کے نرخ اور غیر مستقل فراہمی سرمایہ کاری کو روکتی اور پیداواری لاگت میں اضافہ کرتی ہے۔ اس کا حل صرف انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری اور قابل تجدید توانائی کے منصوبے نہیں بلکہ تقسیم کار کمپنیوں میں اصلاحات بھی ہے جو نااہلی اور کرپشن کی لپیٹ میں ہیں۔ بجلی کے شعبے پر اعتماد بحال کرنے کے لیے، طویل عرصے سے زیر التوا گردشی قرضے کے مسئلے کو فوری طور پر حل کرنا ہوگا۔

حکومت کی غیر ملکی قرضوں اور آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پر توجہ محض عارضی حل ہے۔ پائیدار ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دی جائے اور بالواسطہ ٹیکسوں پر انحصار کم کیا جائے۔ وزیر منصوبہ بندی نے درست طور پر غیر رسمی معیشت کو دستاویزی شکل دینے کی ضرورت کو اجاگر کیا، لیکن اس پر عمل درآمد اب بھی ایک خواب ہے۔ لین دین کی نگرانی کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال اور ڈیجیٹل ادائیگیوں کو فروغ دینا ٹیکس نیٹ کو وسیع کر سکتا ہے، وہ بھی بغیر موجودہ ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالے۔

زرعی پیداوار، جو اکثر پالیسی سازوں کی نظروں سے اوجھل رہتی ہے، معیشت کے لیے ایک اہم پہیہ ہے۔ زراعت میں جدید تکنیکوں کا نفاذ، آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری، اور چھوٹے کسانوں کے لیے کم شرح سود پر قرضوں کی فراہمی پیداوار میں اضافے اور دیہی آمدنی میں بہتری لا سکتی ہے۔ اس سے شہروں کی طرف نقل مکانی کم ہوگی اور شہروں کے انفراسٹرکچر پر دباؤ کم پڑے گا۔

مزید برآں، سیاسی استحکام معاشی اصلاحات کے لیے ناگزیر ہے۔ مسلسل سیاسی ہلچل اور غیر مستحکم پالیسیاں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ حکومت کو معیشتی پالیسیوں پر اتفاق رائے کے ذریعے اصلاحات کو سیاسی تبدیلیوں سے محفوظ بنانا ہوگا۔

مالی خسارے اور کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر محض سطحی علامات ہیں، جبکہ ان کے پیچھے گہرے ساختی مسائل کارفرما ہیں۔ برآمدی ترقی، جو اختراع اور مسابقت پر مبنی ہو، واحد قابل عمل راستہ ہے۔ وزیر منصوبہ بندی کی جانب سے اہم مسائل کی نشاندہی ایک مثبت قدم ضرور ہے، لیکن اب حکومت کو محض بیانات سے نکل کر عملی اقدامات کی طرف آنا ہوگا۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے، اور پاکستان مزید معاشی تنزلی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

معروف ماہر معاشیات پال رومر کے الفاظ میں، ”بحران ایک ضائع کرنے کی چیز نہیں ہے۔“ پاکستان کی معاشی مشکلات جرات مندانہ اصلاحات کے لیے ایک موقع فراہم کرتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی قیادت موجودہ ہنگامی صورت حال کے مطابق اقدامات اٹھائے گی؟ اب تک، چاہے کوئی بھی پارٹی اقتدار میں رہی ہو، پالیسی سازوں نے مایوس ہی کیا ہے۔ اب جبکہ معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانے اور ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے، کیا وہ اپنے طریقے بدلیں گے؟

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف