اگر یہ امید تھی کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں اتحادی حکومت روایتی طرز سے ہٹ کر ترقیاتی اخراجات کے حوالے سے زیادہ مدبر اور حکمت عملی پر مبنی رویہ اختیار کرے گی، تو وہ پوری نہیں ہوسکی۔ حال ہی میں جاری کردہ پلاننگ کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے منصوبوں کے لیے مختص فنڈز بڑی حد تک استعمال نہیں کیے گئے اور مجموعی طور پر 1.1 ٹریلین روپے کی مختص رقم میں سے صرف 26 فیصد یعنی 277 ارب روپے خرچ کیے گئے۔
دوسری جانب، گزشتہ سالوں کی طرح ترقیاتی بجٹ کا ایک بڑا حصہ پائیدار ترقیاتی حصول پروگرام (ایس اے پی ) کی طرف موڑ دیا گیا جو درحقیقت وہ صوابدیدی فنڈز ہیں جو اراکینِ پارلیمنٹ کو ان کے حلقوں میں اسکیموں پر خرچ کرنے کے لیے دیے جاتے ہیں۔
قومی ترقیاتی منصوبوں پر سست روی سے ہونے والے اخراجات کے برعکس، ارکانِ پارلیمنٹ کی اسکیموں کے لیے مختص فنڈز کا 96 فیصد – تقریباً 48.3 ارب روپے – مختص کیے جانے کے چند ہفتوں کے اندر جاری کردیا گیا جب کہ جنوری میں اس مد کے لیے فنڈز کو 25 ارب روپے سے بڑھا کر 50 ارب روپے سے زائد کردیا گیا تھا۔
فروری کے آخر تک ان فنڈز کا 72 فیصد پہلے ہی خرچ کیا جا چکا تھا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ایس اے پی کے لیے جاری کیے گئے فنڈز وزارتِ خزانہ کی جانب سے مالی سال کی پہلی تین سہ ماہیوں کے لیے مقرر کردہ حدود سے کہیں زیادہ تھے، جس سے مالیاتی ضوابط کی پاسداری اور پہلے سے مشکلات کا شکار معیشت میں حکومت کی مالیاتی نظم و ضبط برقرار رکھنے کی صلاحیت پر سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔
یہ مالیاتی ذمہ داری کو نظرانداز کرنے کا واضح مظاہرہ ہے، جو مسلسل حکومتوں کا ایک پرانا طریقہ کار رہا ہے۔ وہ عموماً اراکینِ اسمبلی اور اتحادی شراکت داروں کی وفاداری حاصل کرنے کے لیے صوابدیدی فنڈز پر انحصار کرتی رہی ہیں، جبکہ ان فنڈز کے استعمال پر نگرانی یا جانچ بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
بنیادی پی ایس ڈی پی منصوبوں کے برعکس، جنہیں سخت منظوری اور تقسیم کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے، ایس اے پی منصوبوں پر ایسی کوئی پابندیاں نہیں، جس کے باعث فنڈز کے غلط استعمال، کرپشن اور نااہلی کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ نتیجتاً، ملک کے محدود وسائل سیاسی مقاصد پر مبنی منصوبوں میں جھونک دیے جاتے ہیں، جبکہ ضروری ترقیاتی ترجیحات پسِ پشت چلی جاتی ہیں، جس سے پائیدار ترقی اور مؤثر عوامی خدمات کی فراہمی کمزور ہو جاتی ہے۔
پاکستان کی ترقیاتی حکمتِ عملی کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ نہ صرف پی ایس ڈی پی کا حجم 2013-14 میں جی ڈی پی کے 1.7 فیصد سے گھٹ کر 2024-25 میں محض 0.6 فیصد رہ گیا ہے، بلکہ یہ ایک ناکام ترقیاتی ایجنڈے کی بھی عکاسی کرتا ہے، جو اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے میں ناکام رہا ہے۔
نامکمل منصوبے، مختلف شعبوں میں گھٹتی ہوئی فنڈنگ، مسلسل لاگت اور وقت کی زیادتیاں، اور بجٹ کے استعمال میں شفافیت اور جوابدہی کی کمی پاکستان میں جڑ پکڑ چکی ہیں۔ آئی ایم ایف کی گزشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق، ملک کو صرف دہائیوں سے التوا کا شکار اسکیموں کی تکمیل کے لیے 10.7 ٹریلین روپے درکار ہیں ،تاہم اس تشویشناک حقیقت کے باوجود، قومی ترقیاتی اہداف پر سیاسی مفادات کو فوقیت دی جا رہی ہے۔
اگرچہ اراکینِ پارلیمنٹ کی اسکیموں کیلئے فنڈز کی بڑی مقدار میں تقسیم کچھ مخصوص حلقوں میں قلیل مدتی فوائد فراہم کرسکتی ہے لیکن مجموعی طور پر صورتحال مایوس کن ہی رہے گی۔ ایک اور سال اہم ترقیاتی اہداف حاصل کیے بغیر گزر جائے گا اور معیشت ان طویل مدتی فوائد سے محروم رہے گی جو ایک مؤثر ترقیاتی حکمتِ عملی فراہم کرسکتی ہے، جیسے پیداواری صلاحیت میں اضافہ، تجارتی مواقع میں وسعت اور سرمایہ کاری کے بہتر امکانات۔
حقیقت یہ ہے کہ شدید معاشی بحران کے دوران، جب رواں مالی سال معیشت کو 600 ارب روپے کے بڑے ریونیو خسارے کا سامنا ہے، ہر ترقیاتی منصوبے کو واضح طور پر قومی معاشی اہداف سے ہم آہنگ ہونا چاہیے اور اس میں نمایاں کردار ادا کرنا چاہیے۔
یہ مقامی سطح کے ترقیاتی منصوبوں پر ضرورت سے زیادہ توجہ ، جو زیادہ تر قرض سے چلائے جاتے ہیں اور بنیادی طور پر سیاسی مفادات پر مبنی ہوتے ہیں، قیمتی وسائل کے شدید غلط استعمال کا باعث بنتی ہے—وہی وسائل جو حکمتِ عملی پر مبنی اور ترقی کو فروغ دینے والی سرمایہ کاری میں لگائے جاسکتے تھے۔
ہمارے حکمرانوں کو سمجھنا ہوگا کہ یہ طرزِ حکمرانی، جہاں سیاسی مفادات کو معاشی حقیقتوں پر ترجیح دی جاتی ہے، قابلِ عمل نہیں۔ خصوصاً جب غیر ملکی بیل آؤٹ پر انحصار اب کسی مستقل حل کے طور پر نہیں کیا جاسکتا۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments