ادارہ برائے شماریات پاکستان (پی بی ایس) نے لارج اسکیل مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) کے کوانٹم انڈیکس جاری کیے ہیں جس میں جولائی تا جنوری 2024-25 میں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 1.78 فیصد کی منفی نمو ظاہر کی گئی ہے۔
تاہم ماہانہ بنیادوں پر جنوری 2025 میں دسمبر 2024 کے مقابلے میں 2.09 فیصد مثبت نمو ریکارڈ کی گئی جو بہتری کے رجحان کی عکاسی کرتی ہے اور اس کے جاری رہنے کی امید کی جاسکتی ہے۔
ایک تاریخی تناظر بڑی صنعتوں کی مسلسل منفی کارکردگی کی وجوہات کو واضح کرتا ہے۔ مالی سال 2018-19 میں، اُس وقت کی نئی حکومت کو 20 ارب ڈالر کے ریکارڈ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑا، جس کے باعث اسے روایتی طور پر سابقہ حکومتوں کی طرح آئی ایم ایف سے قرض لینا پڑا۔
بتایا جاتا ہے کہ اُس وقت اقتصادی ٹیم کے سربراہوں—ڈاکٹر حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ اور ڈاکٹر رضا باقر کو گورنر اسٹیٹ بینک بنانے کا فیصلہ جزوی طور پر اس بنیاد پر کیا گیا کہ وہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں کام کر چکے تھے، جس سے قرض کی منظوری میں سہولت متوقع تھی, تاہم اُس وقت اس پہلو کو نظرانداز کیا گیا کہ ان کے نظریات قرض دہندگان کے مؤقف سے کافی حد تک مطابقت رکھتے تھے۔
کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ پچھلی حکومتوں نے قرض دہندہ اداروں کے ساتھ پالیسی اصلاحات پر کوئی سخت مؤقف اختیار کیا تھا یا بھرپور اندرونی اصلاحات تجویز کی تھیں، کیونکہ پاکستان 2018 تک 21 بار آئی ایم ایف پروگرام حاصل کرچکا تھا، البتہ ماضی کی حکومتیں عام طور پر یہ پروگرام اس وقت ترک کر دیتی تھیں جب ادائیگیوں کے توازن کی صورتحال بہتر ہو جاتی تھی۔
اُس وقت کی حکومت، یا اس کے بعد آنے والی حکومتوں کے پاس، یہ سہولت دستیاب نہیں تھی کہ وہ آئی ایم ایف پروگرام کو ترک کر سکیں، کیونکہ اقتصادی اصلاحات کے نفاذ میں مسلسل ناکامی کے باعث بنیادی معاشی اشاریے بتدریج کمزور ہوتے جا رہے تھے۔
حفیظ شیخ اور رضا باقر نے آئی ایم ایف کی ایسی سخت شرائط قبول کیں جو نہ صرف انتہائی کڑی تھیں بلکہ فوری لاگو بھی ہوئیں، جس کے نتیجے میں سخت مالی اور مانیٹری پالیسیوں کا نفاذ ہوا تاہم کووڈ 19 کے باعث آئی ایم ایف نے تمام قرض لینے والے ممالک کیلئے ان شرائط میں نرمی کردی جس کی وجہ سے بڑی صنعتوں کی پیداوار (ایل ایس ایم) کی گراوٹ محدود ہوکر 2018-19 میں منفی 2.32 فیصد تک رہی۔
آئندہ مالی سال مارچ/اپریل 2020 میں کووڈ-19 کے آغاز کے باعث بڑی صنعتوں کی پیداوار (ایل ایس ایم) میں 9.8 فیصد کی منفی نمو ریکارڈ کی گئی۔
پابندیاں ہٹنے اور مجموعی طلب میں بہتری کے نتیجے میں اگلے دو سال میں بڑی صنعتوں کی پیداوار (ایل ایس ایم) میں نمایاں اضافہ ہوا، جو 2020-21 میں 11.2 فیصد اور 2021-22 میں 11.7 فیصد رہی۔ تاہم، 2022-23 میں، جو شہباز شریف کی حکومت کا پہلا مکمل مالی سال تھا، ایل ایس ایم میں 10.3 فیصد کی منفی نمو ریکارڈ کی گئی، جو حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ گراوٹ تھی۔
اس کی وجہ اکتوبر 2022 میں آئی ایم ایف کی شرائط کی خلاف ورزی تھی، جس کے نتیجے میں نہ صرف جاری پروگرام معطل ہوا بلکہ تین دوست ممالک – چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات – کی جانب سے وعدہ شدہ مالی مدد بھی روک دی گئی۔ ان ممالک نے شرط عائد کی کہ فنڈز کی بحالی تب ہی ممکن ہوگی جب پاکستان آئی ایم ایف کے فعال پروگرام میں شامل ہوگا۔
مالی سال 2023-24 میں بڑی صنعتوں کی پیداوار (ایل ایس ایم) میں 0.92 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ تاہم اس سال کی منفی کارکردگی کی ایک بڑی وجہ آئی ایم ایف کے جاری پروگرام کے تحت سخت مالی اور مانیٹری پالیسیوں کو قرار دیا جا سکتا ہے جن میں بلند یوٹیلیٹی نرخ بھی شامل ہیں۔ یہ عوامل صنعتی پیداوار کے لیے اہم رکاوٹ بن رہے ہیں اور شدید تشویش کا باعث ہیں۔
حکومت کے حامی نجی شعبے کو دیے گئے قرضوں میں بڑے اضافے کو مستقبل میں معاشی بہتری کی علامت قرار دے رہے ہیں—جو جولائی تا 16 فروری 2023-24 میں 246.8 ارب روپے سے بڑھ کر جولائی تا 14 فروری 2025 میں 742.1 ارب روپے ہو گیا۔ تاہم، رپورٹس اور بڑی صنعتوں کی پیداوار (ایل ایس ایم) کی کارکردگی ظاہر کرتی ہے کہ یہ تین گنا اضافہ درحقیقت اسٹاک مارکیٹ میں لگا دیا گیا ہے۔
ایل ایس ایم مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں 9.7 فیصد حصہ ڈالتی ہیں اور ملک کے مجموعی پیداواری شعبے میں 76.1 فیصد کی نمائندگی کرتی ہیں، جبکہ چھوٹی اور درمیانی صنعتوں (ایس ایم ای) کا جی ڈی پی میں حصہ صرف 2.12 فیصد اور پیداواری شعبے میں 16.6 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ ایل ایس ایم کا روزگار پیدا کرنے میں بھی نمایاں کردار ہے۔ پاکستانی حکومتیں روایتی طور پر مالیاتی اور مانیٹری مراعات کے ذریعے ایل ایس ایم کو سپورٹ کرتی رہی ہیں تاہم موجودہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت یہ ممکن نہیں رہا۔
آگے بڑھنے کا راستہ آئی ایم ایف کے 30 ستمبر 2022 کے ورکنگ پیپر میں پیش کردہ نکات میں پوشیدہ ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ممکنہ بیرونی اثرات میں ہم آہنگی کی ناکامی شامل ہے، جو مخصوص مہارتوں یا وسائل کی عدم دستیابی یا علم کے پھیلاؤ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ، اسی طرح معلوماتی بیرونی اثرات بھی اہم ہیں، کیونکہ کاروباری ادارے پہلے سے نہیں جان سکتے کہ کون سے مصنوعات کامیاب ہونے کے زیادہ امکانات رکھتی ہیں۔
مجوزہ حکمتِ عملی بیرونی مسائل کے مؤثر حل کے لیے بہترین اور قابلِ عمل طریقہ ہونی چاہیے۔ اس کا لاگت و فائدہ تجزیہ جامع ہو، جس میں عوامی وسائل کے متبادل استعمال اور اس کے سماجی و اقتصادی اثرات کو مدنظر رکھا جائے۔
مزید برآں، حکومتی ناکامی کے خدشات مداخلت کی ضرورت کو غیر مؤثر نہیں بنا سکتے۔ اس خطرے سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ مسابقت کو فروغ دیا جائے، مخصوص کمپنیوں کے بجائے وسیع تر صنعتی شعبوں کی معاونت کی جائے، اور تجارتی آزادی کو یقینی بنایا جائے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments