نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نظرثانی شدہ بائی بیک نرخوں پر عوامی سماعت منعقد کرنے والی ہے، کیونکہ اسے وفاقی کابینہ کی باضابطہ منظوری کے بعد پاور ڈویژن کی جانب سے ہدایات موصول ہو گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے نے موجودہ نیٹ میٹرنگ صارفین، متوقع صارفین اور سولر پینلز نصب کرنے والی کمپنیوں میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔
یہ امکان موجود ہے کہ صارفین کے حقوق کی تنظیمیں حکومت کے اس فیصلے کو چیلنج کریں، جو ملک میں صاف توانائی کے فروغ کی پالیسی سے متصادم نظر آ رہا ہے۔
پاور ڈویژن نے تیرہ مارچ 2025 کو کمیٹی کو بریفنگ دی کہ نیٹ میٹرنگ کا نظام 2015 میں متعارف کرایا گیا تھا تاکہ توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکے اور ملک میں قابل تجدید توانائی کے فروغ کو تیز کیا جا سکے۔ یہ پالیسی رہائشی، تجارتی اور صنعتی صارفین کے لیے متعارف کرائی گئی تھی، جس کے معاہدے کی مدت تین سال رکھی گئی۔ بعد ازاں 2017 میں اس پالیسی میں زرعی شعبے کو بھی شامل کر دیا گیا اور معاہدے کی مدت تمام صارفین کے لیے سات سال کر دی گئی۔
سال 2018 میں بلک اور جنرل سروسز صارفین کو بھی نیٹ میٹرنگ کی اجازت دے دی گئی اور بجلی پیدا کرنے والے یونٹس کی زیادہ سے زیادہ گنجائش صارف کے منظور شدہ لوڈ کا ڈیڑھ گنا مقرر کی گئی۔ نیٹ میٹرنگ کا طریقہ کار اس طرح کام کرتا ہے کہ صارف کے فراہم کردہ یونٹس کو ڈسٹری بیوشن کمپنی کی جانب سے فراہم کردہ یونٹس سے منہا کیا جاتا ہے۔ اگر نیٹ میٹرنگ صارف کی فراہم کردہ بجلی زائد ہو تو وہ اگلے بلنگ سائیکل میں ایڈجسٹ کر دی جاتی ہے یا سہ ماہی بنیادوں پر صارف کو ادائیگی کی جاتی ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں اضافے، سولر پینلز کی قیمتوں میں کمی اور نیٹ میٹرنگ کے تحت دی گئی پرکشش مراعات کے باعث 2017 میں نیٹ میٹرنگ کی گنجائش صرف پانچ میگاواٹ تھی، جو مالی سال 2024 کے اختتام تک 2451 میگاواٹ تک پہنچ گئی۔ اگر موجودہ رفتار برقرار رہی تو مالی سال 2034 تک یہ صلاحیت 14000 میگاواٹ سے تجاوز کر جائے گی۔
مالی سال 25-2024 کے لیے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے نئے ٹیرف کے مطابق، بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے اخراجات کا تقریباً 67 فیصد حصہ مقررہ لاگت پر مشتمل ہے، جبکہ 33 فیصد اخراجات متغیر لاگت سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بجلی کی پیداوار اور کھپت کی سطح سے قطع نظر زیادہ تر اخراجات ادا کرنا پڑتے ہیں۔
پاور ڈویژن کے مطابق، نیٹ میٹرنگ صارفین مقررہ چارجز سے بچ رہے ہیں، جس کی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نیٹ میٹرنگ کی گنجائش میں اضافے کے نتیجے میں مالی سال 2024 میں بجلی کی فروخت میں تقریباً 3.2 ارب یونٹس کی کمی واقع ہوئی، جس کی وجہ سے دیگر صارفین پر ایک سو ایک ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑا اور فی یونٹ نرخ میں تقریباً نوے پیسے کا اضافہ ہوا۔ اگر یہی رجحان جاری رہا تو مالی سال 2034 میں نیٹ میٹرنگ صارفین کی وجہ سے بجلی کی فروخت میں 18.8 ارب یونٹس کی کمی متوقع ہے، جس سے دیگر صارفین پر 545 ارب روپے کا بوجھ بڑھے گا اور فی یونٹ نرخ میں 3 روپے 60 پیسے تک اضافہ ہو سکتا ہے۔
نیٹ میٹرنگ میں اضافے کے باعث بجلی کی ترسیل کے نظام پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ زیادہ نیٹ میٹرنگ والے علاقوں میں بجلی کی ترسیل کے دوران وولٹیج میں اتار چڑھاؤ اور ریورس پاور فلو جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں، جو گرڈ اسٹیشن کی کارکردگی کو متاثر کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ، موجودہ نیٹ میٹرنگ پالیسی قیمتوں اور مساوات کے حوالے سے بھی سوالات پیدا کرتی ہے۔ کم آمدنی والے صارفین جو سولر سسٹم نہیں لگا سکتے، ان پر زیادہ بجلی بلوں کی صورت میں اضافی بوجھ پڑ رہا ہے۔ یہی وجوہات ہیں جن کے باعث حکومت نیٹ میٹرنگ کے نرخوں میں ترمیم کرنے جا رہی ہے، جس پر نیپرا جلد عوامی سماعت منعقد کرے گا۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments