ملک کی برآمدات اور روزگار میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی بنیادی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ حکومتی پالیسی اس کی مسلسل ترقی، عالمی مسابقت میں بہتری، صنعتی چیلنجز کے حل اور بین الاقوامی منڈی کے اتار چڑھاؤ کے خلاف اسے مضبوط بنانے پر مرکوز ہوگی۔
اس کے برعکس جو پالیسیاں نظر آتی ہیں وہ متضاد ہیں اور ٹیکسٹائل سیکٹر پر حکومتی ضوابط اور معاشی دباؤ مزید بڑھارہی ہیں۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کی حالیہ ملاقات میں وزیر خزانہ کو برآمدی سہولت اسکیم (ای ایف ایس) کی خامیوں، ٹیکس ریفنڈز میں تاخیر اور بڑھتی ہوئی توانائی لاگت کے باعث پیدا ہونے والے بحران سے آگاہ کیا گیا، جو مل کر ٹیکسٹائل سیکٹر کے استحکام اور بقا کے لیے سنگین خطرہ بن رہے ہیں۔
برآمدی سہولت اسکیم (ای ایف ایس) سے جڑے مسائل میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ فنانس ایکٹ 2024 کے تحت مقامی خام مال پر زیرو ریٹنگ اور سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کردی گئی جب کہ درآمدی اشیا بدستور ڈیوٹی اور سیلزٹیکس سے مستثنیٰ رہیں۔
مقامی طور پر تیار کیے گئے خام مال پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے، جو قابل واپسی ہے، لیکن ٹیکس ریفنڈ کا نظام واضح طور پر غیر مؤثر ہے۔
سیلز ٹیکس رولز 2006 کے مطابق، ریفنڈز 72 گھنٹوں میں جاری ہونے چاہئیں، مگر برآمد کنندگان کو اکثر چھ ماہ سے زائد تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صرف 70 فیصد کلیمز پراسیس ہوتے ہیں، جبکہ باقی 30 فیصد غیر معینہ مدت تک رکے رہتے ہیں۔ اس تاخیر کے باعث ریفنڈ کی بقایا رقم 329.5 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے، جس نے ٹیکسٹائل سیکٹر کو شدید مالی بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔
اپٹما کے مطابق برآمدی سہولت اسکیم (ای ایف ایس) برآمدات بڑھانے کے بجائے ڈیوٹی فری درآمدی اشیا کو فائدہ پہنچا رہی ہے جبکہ مقامی صنعت کو شدید نقصان ہورہا ہے۔ اس کے نتیجے میں 100 سے زائد اسپننگ ملیں بند ہوچکی ہیں جو سیکٹر کی مجموعی پیداواری صلاحیت کے 40 فیصد کے برابر ہے جب کہ کئی دیگر آدھی استعداد پر کام کرنے پر مجبور ہیں ، اس بحران کی وجہ سے اسپننگ انڈسٹری شدید سست روی کا شکار ہے ، لاکھوں افراد روزگار سے محروم ہو چکے ہیں اور اس زوال کے باعث وسیع تر معاشی بحران کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
یہ واضح ہے کہ ناقص ٹیکس اور درآمدی پالیسیوں نے مقامی صنعت کو نقصان پہنچایا ہے۔ حکومت کو یہ جانچنا ہوگا کہ آیا اس کی پالیسیاں واقعی برآمدات اور ٹیکس آمدنی بڑھارہی ہیں یا صرف ٹیکسٹائل صنعت کے مسائل میں مزید اضافہ کر رہی ہیں۔
مقامی صنعت کو برابری کے مواقع ملنے چاہئیں، اور ڈیوٹی فری درآمدات کو مقامی پیداوار کے نقصان کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ اس تناظر میں اپٹما کی تجویز کردہ تدریجی سیلز ٹیکس پالیسی، جس میں خام مال پر حتمی مصنوعات کے مقابلے میں کم ٹیکس عائد ہو تاکہ مقامی صنعت کو فروغ دیا جا سکے اور ٹیکس چوری روکی جا سکے، قابل غور ہے۔
تاہم یہ بھی تسلیم کرنا ضروری ہے کہ اگر مقامی خام مال کو سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے بھی دیا جائے، تب بھی بڑھتی ہوئی توانائی لاگت کے باعث مقامی صنعت مشکلات کا شکار رہے گی۔
جیسا کہ بین الاقوامی توانائی ایجنسی نے حال ہی میں نشاندہی کی ہے، پاکستان کا صنعتی شعبہ انتہائی مہنگی بجلی کا سامنا کر رہا ہے— جو چین، بھارت اور امریکا کے مقابلے میں تقریباً دگنا ہے اور یورپی یونین کے نرخوں سے بھی زیادہ ہے— جس سے اس کی برآمدی مسابقت شدید متاثر ہورہی ہے۔
جیسا کہ واضح طور پر ریکارڈ کیا گیا ہے، زیادہ ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نقصانات، ساتھ ہی ڈسکوز کی نااہلی اور انتظامی و عملی کمزوریاں، صنعتی شعبے کے لیے توانائی کے مہنگے نرخوں کا سبب بنی ہیں۔ اگرچہ اپٹما نے اس مسئلے کے حل کے لیے کئی تجاویز پیش کی ہیں اور حکومت کچھ پر غور بھی کرسکتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ توانائی نرخوں میں کمی ایک پیچیدہ چیلنج ہے۔اس کے لیے بجلی کے شعبے اور وسیع تر توانائی نظام میں جامع اصلاحات کی ضرورت ہے، جن میں بجلی کی پیداوار کے اخراجات میں کمی، سسٹم نقصانات اور بجلی چوری کا خاتمہ، اور ٹرانسمیشن و ڈسٹری بیوشن انفرااسٹرکچر کی نمایاں بہتری شامل ہے۔
برآمدی سہولت اسکیم (ای ایف ایس) کی خامیوں، ناقص ٹیکس پالیسیوں اور بڑھتی ہوئی توانائی لاگت نے مل کر ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے شدید بحران پیدا کردیا ہے۔
حکومت کو فوری طور پر پالیسیوں کے تضادات دور کرکے ایک متوازن حکمت عملی اپنانی چاہیے، جو مقامی صنعت کو نقصان پہنچائے بغیر برآمدات اور ٹیکس آمدن میں اضافے پر مرکوز ہو۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments