موڈیز جو تین بڑی بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں میں سے ایک ہے اور جس کی ریٹنگز غیر ملکی سرمایہ کاری کے حصول کی شرح کا تعین کرتی ہیں، نے 12 مارچ 2025 کو نوٹ کیا کہ: ہم نے پاکستان کے بینکاری نظام پر اپنا نقطہ نظر مستحکم سے مثبت کردیا ہے تاکہ بینکوں کی مستحکم مالی کارکردگی اور پچھلے سال کی انتہائی کمزور سطح سے بہتری کی جانب بڑھتی ہوئی معاشی صورتحال کو ظاہر کیا جاسکے۔

موڈیز کے مطابق ”مستحکم“ کا مطلب ہے کہ کسی ادارے کا کریڈٹ رسک درمیانی مدت میں برقرار رہے گا، جس سے اس کی کریڈٹ ریٹنگ میں استحکام رہے گا جبکہ ”مثبت“ نقطہ نظر لازمی طور پر ریٹنگ میں اضافے یا کمی کا مطلب نہیں ہوتا۔

حکومت نے گزشتہ سال بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے اتفاق کیا تھا کہ وہ کابینہ میں ترامیم پیش کرے گی، جو کہ آئی ایم ایف کی تکنیکی معاونت کے مشورے کی عکاسی کرے گی، تاکہ ابتدائی مداخلت، بینکوں کی بحالی، اور بحران کے انتظامی انتظامات، بشمول ڈپازٹ انشورنس اسکیم، کو بین الاقوامی بہترین طریقوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔ بعد ازاں یہ ترامیم پارلیمنٹ میں پیش کی گئیں، جہاں انہیں گزشتہ سال منظور کر لیا گیا۔

دو نجی بینکوں کی دوبارہ سرمائے کی فراہمی کا پہلا مرحلہ، جو کم سرمائے کے مسائل کا شکار تھے، گزشتہ سال مکمل کرلیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے یہ عہد بھی کیا کہ وہ کسی بھی اضافی بینک کے کم سرمائے کا شکار ہونے کی صورت میں فوری نگرانی اور ضروری اقدامات کرے گی۔

حکام نے گزشتہ سال آئی ایم ایف کو جمع کرائے گئے لیٹر آف انٹینٹ میں، جو 7 ارب ڈالر کے قرض کی منظوری کے لیے لازمی تھا، تسلیم کیا کہ 6 مائیکروفنانس بینک سرمائے کی کمی کا شکار ہیں اور حکومت ان کے ساتھ اس مسئلے کے حل کے لیے کام کررہی ہے۔ مزید کہا گیا کہ جب تک یہ مسائل نگران ادارے کی تسلی اور آئی ایم ایف کی دیگر شرائط کے مطابق حل نہیں ہو جاتے، ڈپازٹ انشورنس اسکیم اس شعبے تک نہیں بڑھائی جائے گی۔ ساتھ ہی ترقیاتی شراکت داروں کے ساتھ طویل مدتی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے مختلف اسکیموں پر بات چیت جاری ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی حکام 2019 میں اپنی سودے بازی کی پوزیشن کھو بیٹھے، جب آئی ایم ایف نے پیشگی شرائط کی تکمیل تک قرض دینے سے انکار کردیا۔ یہ فیصلہ اسٹاف کے اس تجزیے کی بنیاد پر تھا کہ ماضی کی حکومتیں آئی ایم ایف پروگرامز لیتی رہیں لیکن یا تو انہیں درمیان میں چھوڑ دیا یا سیاسی وجوہات کی بنا پر نافذ کردہ اصلاحات کو واپس لے لیا۔ یہی وجہ ہے کہ 21 پروگرام حاصل کرنے کے باوجود ملکی معیشت اب بھی نازک صورتحال میں ہے۔

بعض ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرامز کی ناکامی کی اصل وجہ کچھ اور ہے، خاص طور پر وہ معاشی اتار چڑھاؤ (بوم بسٹ سائیکل) جو پاکستان کی معیشت کا مستقل حصہ رہا ہے۔ ترقی کا یہ دور خام مال کی زیادہ درآمدات کے باعث آتا ہے، جس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ جاتا ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت پیش آتی ہے۔ تاہم، خسارے کو کم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی حمایت یافتہ سخت معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں درآمدات کی طلب گھٹ جاتی ہے، جس سے معاشی نمو کمزور پڑجاتی ہے۔

کچھ ماہرین کا مؤقف ہے کہ اصل مسئلہ آئی ایم ایف پروگرام کے ناقص ڈھانچے میں ہے، جو وقت کے ساتھ معمولی تبدیلیوں کے باوجود بنیادی طور پر وہی رہا ہے۔

تاہم، اس تناظر میں یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ تمام حکومتوں، چاہے وہ سول ہوں یا عسکری حمایت یافتہ، کی عمومی ترجیح ہمیشہ ایک ٹیکنوکریٹ کو وزیر خزانہ مقرر کرنا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی افراد بار بار اس عہدے پر فائز رہے، مگر مطلوبہ معاشی نتائج حاصل نہ کر سکے۔

مسلم لیگ (ن) واحد جماعت تھی جس نے پارٹی کے سینئر رہنما اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ مقرر کیا۔ ان کی اس عہدے سے علیحدگی کی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ اختلافات تھے۔

پاکستان کو ایسے وزیر خزانہ کی ضرورت ہے جو متعلقہ تعلیمی پس منظر رکھتے ہوں، ترجیحاً علمی میدان سے وابستہ ہوں، اور ملک کے اندر معاشی ترقی کے لیے مؤثر ماڈلز بنانے کا تجربہ رکھتے ہوں۔

موڈیز کی ریٹنگ کے مقابلے میں بہتر آؤٹ لک اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکام گزشتہ سال طے شدہ معاہدے کی شرائط پر عمل کررہے ہیں۔

تاہم، محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اس وقت توانائی کے گردشی قرضے کی ادائیگی کے لیے کمرشل بینکوں سے ایک کھرب روپے سے زائد قرض لینے پر غور کر رہی ہے۔ چونکہ بینک پہلے ہی سرکاری سیکیورٹیز میں بڑے پیمانے پر سرمایہ لگا چکے ہیں اور ان کی توانائی کے شعبے میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری ہے، اس لیے یہ اقدام آئی ایم ایف کو تشویش میں مبتلا کر سکتا ہے کہ اس سے بینک مزید غیر مستحکم اور ناقص انتظام والے توانائی شعبے کے خطرات کا شکار ہوجائیں گے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف