میڈیا میں آنے والی رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت 1.25 ٹریلین روپے کا قرض تجارتی بینکوں سے حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ 2.5 ٹریلین روپے کے گردشی قرضے کو کم کیا جا سکے۔ دوسرے الفاظ میں گردشی قرضے کا 50 فیصد ادا کیا جائے گا، تاہم حکومت کی جانب سے اس قرض پر دی جانے والی شرحِ سود ابھی تجارتی بینکوں سے مذاکرات کے مرحلے میں ہے، اگرچہ عمومی تاثر یہی ہے کہ یہ معاہدہ جلد طے پا جائے گا۔

اس اقدام کا مقصد آزاد بجلی پیدا کرنے والے اداروں (آئی پی پیز) کو دیے جانے والے سود کی شرح اور تاخیر سے ادائیگی کے چارجز کو کم کرنا ہے، جسے کائبور پلس 2 سے 4.5 فیصد کے درمیان لایا جائے گا۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس سے بجلی کی فی یونٹ لاگت کم ہو جائے گی، جس کا فائدہ صارفین کو منتقل کیا جا سکے گا۔

تاہم کم ہونے والا سود صارفین سے وصول کیا جائے گا جو موجودہ منصوبے کے مطابق پانچ سے چھ سال میں ادا کرنا ہوگا۔

یہ قابل ذکر ہے کہ سال 2008 سے بجلی کے شعبے کی ناکامیوں کو پورا کرنے کے لیے تجارتی بینکوں سے لیے گئے قرضے پاور ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی میں رکھے گئے ہیں۔ ہر حکومت نے عالمی مالیاتی اداروں سے گردشی قرضے کے مجموعی حجم کے بجائے اس کے اضافے کو کم کرنے کا وعدہ کیا، مگر اس میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔

مارچ 2021 کے دوران ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے اپنے مجوزہ پروگرامی طریقہ کار اور پالیسی پر مبنی قرضہ برائے سب پروگرام 2، اسلامی جمہوریہ پاکستان: توانائی شعبے میں اصلاحات اور مالیاتی استحکام کے تحت گردشی قرضے کے بجلی کے شعبے پر اثرات کا جائزہ لیا اور اس کے 5 اہم عوامل کی نشاندہی کی جن میں نمایاں طور پر شامل ہیں:(i) بجلی کی پیداوار کی زیادہ لاگت بالآخر ڈسکوز کی وصولی اور آپریشنل نااہلیوں میں کردار ادا کرتی ہے۔(ii) ٹیرف کے تعین میں رکاوٹیں اور تاخیر۔؛(iii) زیادہ ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نقصانات اور ڈسکوز کی جانب سے کم محصولات جمع کرنا؛(iv) حکومت کی جانب سے ڈسکوز اور کے الیکٹرک کو ٹی ڈی ایس کی جزوی اور اکثر تاخیر سے ہونے والی ادائیگی۔(v) پی ایچ پی ایل کی جانب سے لیے گئے قرضوں پر زیادہ مالی اخراجات اور سی پی پی اے-جی کے واجبات پر مہنگے تاخیری جرمانے جیسے عوامل آج بھی توانائی شعبے کی کارکردگی کو متاثر کررہے ہیں ۔ حکومت کی جانب سے قرض لے کران پر سود کی شرح کم کرنے کا اقدام ان بنیادی مسائل کو حل نہیں کرتا جو کہ انتظامی ناکامیوں اور ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہیں ، ان پالیسیوں میں نہ صرف ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی نشاندہی کردہ مسائل شامل ہیں بلکہ ٹیرف ڈیفرنس سبسڈی کی مد میں ہر سال اوسطاً آدھے ٹریلین روپے سے زائد کی ادائیگی بھی شامل ہے، جو ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے ڈسکوز کو دی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ کے الیکٹرک، جو کہ ایک نجی ادارہ ہے کیلئے بھی موجودہ مالی سال میں 174 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ عام پالیسی سازوں کے بجائے شعبے کے ماہرین پر انحصار کرے، کیونکہ سیاستدان، چاہے ان کی نیت کتنی ہی اچھی ہو، عمومی مہارت رکھتے ہیں ۔ توانائی شعبے کیلئے ایک جامع پالیسی تیار کرنا ضروری ہے، جس میں آئی پی پیز کے ساتھ موجودہ معاہدوں کی خامیوں کو دور کرنا شامل ہو، خاص طور پر چینی آئی پی پیز جو ادائیگیوں کی تنظیم نو پر تو راضی ہیں لیکن معاہدے کی شرائط پر دوبارہ بات چیت کے لیے تیار نہیں ۔ اسی طرح حکومت کو قومی گرڈ سے بجلی کی طلب میں کمی کے نتیجے میں ٹیرف میں اضافے کے مسئلے کو بھی دیکھنا ہوگا، کیونکہ آئی پی پیز اپنے معاہدے ’ٹیک اور پے سے ’ٹیک اینڈ پے میں تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایسے میں قابل تجدید توانائی (سولر/ونڈ) پر زیادہ انحصار کے منصوبے شروع کرنے سے گریز کیا جائے، حالانکہ مستقبل میں یہی سب سے بہتر راستہ ہوگا۔

انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی ایک رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ پاکستانی صنعت شدید مسابقتی نقصان میں ہے اور چین، امریکہ، بھارت اور بیشتر یورپی ممالک کے مقابلے میں دُگنی قیمت پر بجلی حاصل کر رہی ہے ، یہ فرق اس وقت اور نمایاں ہوا جب یورپی ممالک نے روس سے سستے ایندھن کی درآمد پر امریکی قیادت میں عائد پابندیوں کے تحت پابندی لگائی جس کے نتیجے میں وہاں بجلی کے نرخوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔

تاہم، بجلی واحد پیداواری عنصر نہیں جو پاکستان میں مسابقتی ممالک کے مقابلے میں زیادہ مہنگا ہے۔ یہاں سرمایہ کاری پر قرضوں کی لاگت بھی زیادہ ہے، جبکہ مزدوری اگرچہ نسبتاً سستی ہے، مگر مہارت کے فقدان کے باعث پیداواری صلاحیت اور معیار پر منفی اثر پڑتا ہے۔

برآمدات کے فروغ کیلئے ماضی میں مختلف حکومتوں نے پانچ بڑی برآمدی صنعتوں کو مالی اور مانیٹری مراعات فراہم کیں تاکہ عالمی منڈی میں مسابقت برقرار رکھی جا سکے۔ تاہم موجودہ حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ 7 ارب ڈالر کے جاری ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی معاہدے کے تحت ان مراعات کو ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس فیصلے سے برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ یہ صنعتیں پہلے ہی بلند پیداواری لاگت اور دیگر معاشی چیلنجز کا سامنا کررہی ہیں۔

توانائی کا شعبہ طویل عرصے سے شدید عدم فعالیت کا شکار رہا ہے اور مختلف حکومتوں نے صرف ان اصلاحات پر عمل کیا ہے جو بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے طے شدہ تھیں، جن کے تحت اس شعبے کی ناکامیوں کا بوجھ عام عوام پر ڈال دیا گیا، یعنی زیادہ ٹیرف کی صورت میں۔ اس روش کو بدلنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ملک میں غربت کی شرح 44 فیصد کی بلند سطح پر پہنچ چکی ہے، اور عام شہری کی بجلی کے بل ادا کرنے اور بنیادی ضروریات پوری کرنے کی سکت نمایاں طور پر کم ہوچکی ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف