اداریہ

ای ایف ایف جائزہ: پاکستان کی کارکردگی اور آئی ایم ایف کے مطالبات

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا وفد اس وقت پاکستان میں موجود ہے تاکہ توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت...
شائع March 7, 2025

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا وفد اس وقت پاکستان میں موجود ہے تاکہ توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت پہلے جائزے کا انعقاد کرے۔

اطلاعات کے مطابق حکومت اس جائزے کے لیے مضبوط پوزیشن میں ہے اور وزیر خزانہ خاصے پُراعتماد ہیں۔ مجموعی طور پر، مالی اور مانیٹری دونوں اہداف حاصل کیے جانے کا امکان ہے۔

تاہم، ساختی بینچ مارکس اور اشاریاتی اہداف میں کچھ مسائل درپیش ہیں۔ اگرچہ جائزے کی منظوری متوقع ہے، لیکن آئی ایم ایف حکومت پر ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور رسمی شعبے پر بوجھ کم کرنے کے لیے دباؤ ڈالے گا۔

فروری تک ٹیکس محصولات میں 450 ارب روپے کی کمی ہے، اور سال کے اختتام تک یہ خلا ایک کھرب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے۔ ان گراوٹوں کی کچھ جائز وجوہات موجود ہیں ، کیونکہ مہنگائی اور حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو ابتدائی اندازوں سے کہیں کم رہی ہے۔

تاہم، اس کمی کی ایک بڑی وجہ ایف بی آر اور حکومت کی جانب سے تاجروں اور ہول سیلرز کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے میں ناکامی بھی ہے۔ یہی صورتحال رئیل اسٹیٹ سمیت معیشت کے دیگر بڑے غیر رسمی شعبوں میں بھی دیکھی جا رہی ہے۔

حکومت پہلے سے ہی چھوٹے رسمی ٹیکس ادا کرنے والے شعبے پر مزید بوجھ نہیں ڈال سکتی۔ کارپوریٹ اور انفرادی ٹیکس کی شرحیں (تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار دونوں کے لیے) دنیا میں بلند ترین سطح پر ہیں، جبکہ عوامی خدمات کی فراہمی انتہائی کمزور ہے۔

بالواسطہ ٹیکس، جیسے جی ایس ٹی، ایف ای ڈی اور دیگر، حد سے زیادہ بلند ہیں، جس کے نتیجے میں دستاویزی معیشت کے کئی شعبوں میں بھاری ٹیکس بوجھ کے باعث فروخت میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔

لافَر کرو کا عمل دخل نظر آ رہا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ ٹیکس کی شرحیں ممکنہ طور پر پہلے ہی مثالی سطح سے تجاوز کرچکی ہیں۔

بدقسمتی سے، ایف بی آر اور وزارت خزانہ مناسب ٹیکس تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ صنعت سے متعلق رپورٹس بھی ناکافی ہیں۔ زیادہ ٹیکس شرح کے باعث غیر رسمی کاروبار کے فروغ کی ترغیب بڑھ گئی ہے۔ مثال کے طور پر، تمباکو پر ٹیکس کی شرح دگنی کرنے کے بعد غیر رسمی کاروبار مزید پھلنے پھولنے لگا ہے۔

یہی صورتحال رسمی ڈیری اور جوس مارکیٹ میں بھی دیکھنے میں آ رہی ہے، جہاں جی ایس ٹی اور بڑھتے ہوئے ایف ای ڈی نے چھوٹے، ٹیکس چوری کرنے والے کاروباروں کو غالب آنے کا موقع دے دیا ہے۔ اس تبدیلی کے باعث باضابطہ پیکیجنگ انڈسٹری متاثر ہو رہی ہے، کیونکہ یہ کاروبار چین سے غیر قانونی طور پر پیکیجنگ درآمد کر رہے ہیں تاکہ ڈیوٹیز سے بچا جا سکے۔ نتیجتاً، رسمی شعبے کی فروخت اور ٹیکس وصولی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

رسمی شعبہ، خاص طور پر مالیاتی اور آئی ٹی سیکٹر، اب افرادی قوت کی بھرتی میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔

بہت سے افراد فری لانسنگ کو ترجیح دے رہے ہیں، جبکہ کچھ کمپنیاں اپنی غیر ملکی ذیلی کمپنیوں کے ذریعے اس رجحان کو فروغ دے رہی ہیں۔ یہاں تک کہ برآمدی کمپنیوں کے لیے بھی ٹیکس مراعات کا اطلاق کارپوریٹ سطح پر ہونا چاہیے، نہ کہ ملازمین کی سطح پر۔ تاہم، تنخواہوں پر زیادہ ٹیکس کی وجہ سے افراد متبادل راستے تلاش کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

ایف بی آر کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ جی ایس ٹی کی شرح بڑھانا کوئی حل نہیں، کیونکہ اس سے مزید کاروبار غیر رسمی معیشت کی طرف چلے جائیں گے۔ مجموعی طور پر نفاذ کمزور، گورننس ناقص اور عوامی خدمات کی فراہمی غیر تسلی بخش ہے۔ ٹیکس شرح کو متوازن کرنا ضروری ہے، جبکہ ٹیکس نیٹ کو بھی وسیع کیا جانا چاہیے۔

مزید برآں، امکان ہے کہ آئی ایم ایف زرعی آمدنی پر ٹیکس کے حوالے سے پیش رفت سے مطمئن نہیں ہے۔ اگرچہ پنجاب نے 31 دسمبر 2024 کی مقررہ ڈیڈلائن کے اندر قانون سازی کرلی، لیکن دیگر صوبوں نے اس عمل میں تاخیر کی۔ قانون سازی کے باوجود، اس ٹیکس کے نفاذ میں سنجیدگی نظر نہیں آتی، اور آئی ایم ایف کا عملہ غالباً اس ہچکچاہٹ کو محسوس کررہا ہے۔

ایک دلچسپ تضاد سامنے آیا ہے— پنجاب کی قانون سازی میں زرعی آمدنی پر ٹیکس کے لیے فصلوں اور مویشیوں کو زرعی شعبے کا حصہ قرار دیا گیا ہے، جبکہ ایف بی آر کا مؤقف ہے کہ مویشیوں کی آمدنی پر ٹیکس کا اختیار وفاق کے پاس ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر، دیگر صوبوں نے اپنی ٹیکس قوانین میں سے لائیو اسٹاک کو خارج کر دیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے: اگر مویشیوں پر ٹیکس لگانا واقعی ایف بی آر کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، تو وہ اس سے محصولات کیوں اکٹھے نہیں کر رہا؟ یہ ایک وسیع شعبہ ہے، جو زرعی معیشت کا نصف سے زیادہ حصہ رکھتا ہے اور خاص طور پر عیدالاضحیٰ کے دوران ایک بڑی نقدی منڈی بنتا ہے، پھر بھی یہ تاحال ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔ لہٰذا، ایف بی آر کو اس پر وضاحت دینی چاہیے۔

اصل بات یہ ہے کہ ایف بی آر کو اپنی کارکردگی بہتر بنانی ہوگی، اور آئی ایم ایف کو ٹیکس نیٹ کے حقیقی پھیلاؤ پر زور دینا چاہیے جب تک کہ یہ ہدف حاصل نہ ہو جائے۔ ممکن ہے کہ آئی ایم ایف کا وفد اس جائزے کی منظوری دے دے اور خسارے کو عارضی طور پر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی سے پورا کر لیا جائے، لیکن اصل توجہ آئندہ مالی سال کے بجٹ فریم ورک پر ہونی چاہیے۔ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے میں ناکامی کے لیے مزید کوئی بہانہ قابل قبول نہیں ہوگا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف