مہنگائی کی گرتی ہوئی شرح اپنی رفتار برقرار رکھے ہوئے ہے، فروری 2025 میں ہیڈ لائن انفلیشن کم ہو کر 1.5 فیصد کی نو سالہ کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔ توقع ہے کہ مارچ میں یہ مزید کم ہو کر ممکنہ طور پر 1 فیصد سے بھی نیچے چلی جائے گی۔ تاہم، اس تیز رفتار کمی کے باوجود صارفین کو اس کا فائدہ محسوس نہیں ہو رہا، کیونکہ قوت خرید میں ہونے والی کمی کو بحال ہونے میں کافی وقت لگے گا۔

اعداد و شمار ایک حیران کن کہانی بیان کرتے ہیں—سی پی آئی مئی 2023 میں 38 فیصد کی بلند ترین سطح سے گر کر مارچ 2025 میں محض 1.5 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اگر شہباز شریف حکومت اس کثیر سالہ کم ترین مہنگائی کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے، تو اسے اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ تاریخ کی بلند ترین مہنگائی بھی انہی کے دور حکومت میں ہوئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ خراب معاشی پالیسیاں، اور عالمی سطح پر اشیائے ضروریہ کے سپر سائیکل نے مہنگائی کو آسمان پر پہنچایا تھا۔ دوسری جانب، نگران حکومت کے دوران بہتر اقتصادی نظم و نسق اور عالمی سطح پر قیمتوں میں کمی کی وجہ سے اب مہنگائی میں کمی آ رہی ہے۔

اس کمی کی ایک وجہ ”بیس ایفیکٹ“ بھی ہے، جو اگلے مہینے تک اپنی سائیکل مکمل کر لے گا۔ توقع ہے کہ مارچ میں مہنگائی کم ہو کر 1 فیصد سے بھی نیچے چلی جائے گی، جس کے بعد یہ دوبارہ بڑھ سکتی ہے—لیکن امید کی جا رہی ہے کہ یہ سنگل ڈیجٹ میں ہی رہے گی۔

 ۔
۔

فروری کے مہنگائی کے اعداد و شمار تجزیہ کاروں کی توقعات سے بھی کم نکلے، کیونکہ زیادہ تر ماہرین اسے تقریباً 2 فیصد کے قریب دیکھ رہے تھے۔ سی پی آئی انڈیکس ماہانہ بنیاد پر 0.8 فیصد کم ہوا، جس کی بڑی وجہ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی تھی، جو سالانہ بنیادوں پر 4.5 فیصد اور ماہانہ بنیاد پر 2.65 فیصد کم ہوئیں۔

خراب ہونے والی غذائی اشیاء کی قیمت میں نمایاں کمی دیکھی گئی، جو سالانہ بنیادوں پر 20.3 فیصد اور ماہانہ بنیاد پر 16 فیصد کم ہوئیں۔ کچھ نمایاں کمی درج ذیل تھیں، ٹماٹر 56.8 فیصد کمی،پیاز 31.5 فیصد کمی ،آلو20.1 فیصد کمی ،تازہ سبزیاں 16.7 فیصد کمی ،انڈے 14.2 فیصد کمی شامل ہے۔ ان اشیا کی قیمتیں خاصی غیر مستحکم ہوتی ہیں اور وقت کے ساتھ کسی بھی سمت میں جا سکتی ہیں۔

 ۔
۔

زیادہ پائیدار اور مستقل کمی غیر خراب ہونے والی غذائی اشیا میں دیکھی گئی، جیسے کہ گندم اور آٹے کی قیمتیں گزشتہ سال کے مقابلے میں 34 سے 36 فیصد کم ہو چکی ہیں۔ اس کمی کی بڑی وجہ گندم کی امدادی قیمتوں کا خاتمہ اور عالمی سطح پر قیمتوں میں کمی کے باعث درآمدات میں اضافہ ہے۔ اگرچہ اس سے غذائی مہنگائی قابو میں آئی ہے، مگر اس کے نتیجے میں زرعی معیشت متاثر ہوئی ہے، جو مجموعی اقتصادی ترقی اور روزگار کے مواقع پر دباؤ ڈال رہی ہے۔

خوراک کے علاوہ، توانائی کی قیمتوں میں بھی کمی واقع ہوئی ہے، جس کا سبب عالمی سطح پر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی اور مستحکم کرنسی ہے۔ رہائشی اور سہولتی سب انڈیکس سالانہ بنیاد پر 0.3 فیصد کم ہوا، جس میں بجلی کے نرخ 16.6 فیصد اور موٹر فیول کی قیمتیں 5.1 فیصد کم ہوئیں۔ ان عوامل نے گزشتہ 12 ماہ میں خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں مسلسل کمی میں مدد دی ہے۔

تاہم، مہنگائی کے تمام اجزاء یکساں رفتار سے کم نہیں ہو رہے۔ بنیادی مہنگائی، جو خوراک اور توانائی کے اثرات کو نکال کر دیکھی جاتی ہے، مئی 2023 میں 22.7 فیصد کی بلند ترین سطح پر تھی اور اب فروری 2025 میں کم ہو کر 8.85 فیصد پر آ گئی ہے۔ تاہم، یہ پچھلے مہینے کی سطح پر برقرار رہی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنیادی مہنگائی مزید کم ہوسکتی ہے۔

 ۔
۔

بہت سے لوگ، خاص طور پر متوسط طبقہ، اب بھی مشکلات محسوس کر رہے ہیں، کیونکہ ان کے اخراجات صحت (15.5 فیصد)، کپڑوں اور جوتوں (15.2 فیصد) اور دیگر ضروری اشیاء (11.1 فیصد) پر بدستور دوہرے ہندسوں میں بڑھ رہے ہیں۔ دیہی علاقوں میں، تعلیمی اخراجات کی مہنگائی گزشتہ ماہ 24.5 فیصد رہی، جس سے مالی بوجھ مزید بڑھ گیا ہے۔

معیشت کے تمام شعبے کم مہنگائی کا تجربہ نہیں کر رہے۔ جہاں طلب زیادہ ہے اور معاشی ترقی زیادہ مضبوط ہے، وہاں مہنگائی اب بھی برقرار ہے۔ مثال کے طور پر، مالی سال 2025 کی پہلی سہ ماہی میں، سب سے زیادہ ترقی کرنے والا سروسز کا ذیلی شعبہ رہائشی خدمات تھا، جہاں شہری علاقوں میں قیمتیں ایک ہی مہینے میں 5 فیصد بڑھ گئیں۔

یہ رجحان ظاہر کرتا ہے کہ جہاں طلب زیادہ ہے، وہاں مہنگائی برقرار ہے یا بڑھ رہی ہے۔ پالیسی ریویوز میں شرح سود میں 10 فیصد کمی کے بعد، مزید شعبوں میں طلب میں اضافہ متوقع ہے، جو مہنگائی کو دوبارہ اوپر لے جا سکتا ہے۔ تاہم، زراعت کا خراب معاشی ماحول طلب اور مہنگائی کو قدرتی طور پر قابو میں رکھنے کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔

مالی سال 2025 کے ابتدائی آٹھ مہینوں میں اوسط مہنگائی 5.9 فیصد رہی، اور دیہی علاقوں میں طلب کمزور ہونے کے سبب مزید مانیٹری نرمی کی کچھ گنجائش موجود ہے۔ تاہم، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مانیٹری پالیسی کے تاخیری اثرات کا بغور جائزہ لینا ہوگا، کیونکہ شہری علاقوں میں صارفین کے رویے میں تبدیلی کے آثار نظر آ رہے ہیں، جو مہنگائی کے دباؤ کو دوبارہ بڑھا سکتے ہیں۔

Comments

200 حروف