ایک پارلیمانی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پی آئی اے کی اوپن اسکائی پالیسی کے باعث اس کا مارکیٹ شیئر 50 فیصد سے کم ہوکر 20 فیصد رہ گیا جبکہ اس نقصان کا فائدہ غیر ملکی ایئرلائنز نے اٹھایا ہے۔

1992 سے لے کر 2014-17 تک چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت غیر ملکی انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدے یکساں نوعیت کے تھے، جن میں گنجائش ادائیگی (کیپیسٹی پیمنٹ) اور 100 فیصد منافع وطن واپس لے جانے کی اجازت دی گئی۔ یہ شرائط اب واضح طور پر پاکستانی صارفین اور مینوفیکچرنگ سیکٹر کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہیں، جو بین الاقوامی اور مقامی سطح پر مسابقت سے قاصر ہے۔ اس کا ثبوت جولائی تا نومبر 2024 کے دوران بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ میں منفی 1.32 فیصد کی شرح نمو ہے۔

اور پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992 ء کی منظوری جس کے تحت غیر ملکی کرنسی کے لامحدود اخراج کی اجازت دی گئی ، ایک ایسی سہولت جو آج تک ترقی یافتہ معیشتوں کے شہریوں کو ان کے آبائی ملک میں دستیاب نہیں ہے ،اس قانون کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر سرمائے کا انخلا ہوا، اگرچہ اس میں ملوث رقم کا کوئی تخمینہ موجود نہیں۔

غلطیاں، چاہے بڑی ہوں یا چھوٹی، دنیا بھر کی حکومتوں سے ہوتی ہیں، لیکن ہماری حکومتوں کی پہچان ان غلطیوں کا بار بار دہرایا جانا اور تجرباتی تجزیوں کے ذریعے ان کا اعتراف کرنے میں ناکامی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی پالیسی کا بنیادی رخ معیشت کو آزاد بنانا، ریاستی ملکیتی اداروں (ایس او ایز) کی تنظیم نو اور بالآخر ان کی نجکاری رہا ہے، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نجکاری کے حوالے سے محتاط رویہ اختیار کرتی رہی ہے۔ (عملے کی منظم مخالفت کی وجہ سے جس کی وجہ سے دونوں جماعتوں کی انتظامیہ کے دوران یونٹوں کی نجکاری میں ناکامی ہوئی ہے)۔ اس کے برعکس، پیپلز پارٹی نجی و سرکاری شراکت داری کو ترجیح دیتی ہے۔

اس فرق کے باوجود، تقریباً تمام حکومتوں، بشمول موجودہ حکومت، نے نجی شعبے کو معیشت کی ترقی میں مرکزی کردار دینے کی حمایت کی ہے، کیونکہ اسے زیادہ مؤثر اور منافع پر مبنی سمجھا جاتا ہے۔ یہی دو عوامل ریاستی اداروں کی ناقص کارکردگی اور بجلی کے نرخوں سمیت دیگر سرکاری خدمات و مصنوعات کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں کی بنیادی وجوہات ہیں۔ مزید برآں، نجی شعبے کو کرپشن سے پاک تصور کیا جاتا ہے، اگرچہ یہ تصور اس سرکاری مؤقف سے متصادم ہے کہ نجی شعبہ بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری یا واجب الادا ٹیکس کی ادائیگی سے گریز کر رہا ہے۔

اس تناظر میں یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے عملے کی 10 اکتوبر 2024 کی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “ریاست کی جانب سے کاروباری اداروں کو سبسڈی، موافق ٹیکس انتظامات، تحفظ اور سرکاری قیمتوں کے تعین کے ذریعے فراہم کی جانے والی معاونت نے ایک متحرک اور برآمدی رجحان رکھنے والی معیشت کی ترقی کو متاثر کیا ہے۔

سبسڈی کم لاگت فنانسنگ اور دیگر رعایتوں کی صورت میں دی گئی ہے، جو اگرچہ مختلف صنعتوں میں متنوع رہی، لیکن اس کے نتیجے میں فنانسنگ اور سبسڈی کے بعد کے خالص ٹیکس کا بوجھ ہم پلہ معیشتوں اور نسبتاً کم مراعات یافتہ شعبوں کے مقابلے میں زیادہ سازگار رہا۔

ٹیکس نظام کو بڑے پیمانے پر غیر شفاف معاونت کے لیے استعمال کیا گیا، جس میں ریئل اسٹیٹ، زراعت، مینوفیکچرنگ، اور توانائی جیسے مراعات یافتہ شعبوں کو چھوٹ دی گئی، ساتھ ہی اسپیشل اکنامک زونز (ایس ای زیڈز) کے پھیلاؤ کے ذریعے بھی سہولتیں فراہم کی گئیں۔

حکومت کی جانب سے زرعی اجناس، ایندھن کی مصنوعات، بجلی، اور گیس (ششماہی بنیادوں پر) کی قیمتوں کے تعین میں مداخلت، ساتھ ہی بلند ٹیرف اور نان-ٹیرف تحفظ نے مخصوص گروہوں یا شعبوں کے حق میں معاشی توازن کو بگاڑ دیا۔

ان تمام معاونت کے باوجود کاروباری شعبہ معاشی ترقی کا انجن بننے میں ناکام رہا جبکہ یہ مراعات بالآخر مسابقت کو کمزور کرنے کا سبب بنیں اور وسائل کو مسلسل غیر مؤثر صنعتوں (بشمول ہمیشہ ”نوزائیدہ“ قرار دی جانے والی صنعتوں) میں محدود کر دیا۔

نجی صنعتی اور زرعی یونٹس کو دی گئی مراعات کی ناکامی پر یہ سخت تنقید کابینہ کے ارکان، بالخصوص معاشی ٹیم کے رہنماؤں کے لیے فوری نظرثانی کا تقاضا کرتی ہے۔

اس کے علاوہ، دوست ممالک سے غیر ملکی سرمایہ کاری کے حصول پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے اور اب تک 20 ارب ڈالر سے زائد کے مفاہمتی یادداشتوں (ایم او یوز) پر دستخط ہوچکے ہیں۔ اس عمل کی مکمل حمایت ضروری ہے، تاہم ان یادداشتوں کے تحت وعدہ کی گئی رقوم کی عملی ادائیگی میں تاخیر کی وجوہات کا جائزہ لینا بھی لازم ہے۔کیا یہ تاخیر اس وجہ سے ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کے باعث غیر ملکی سرمایہ کاروں کو وہ مالی اور مالیاتی مراعات دینے سے قاصر ہے، جن کا اس نے وعدہ کیا تھا؟ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ موجودہ نازک معاشی حالات میں ملک آئی ایم ایف پروگرام کی معطلی کا متحمل نہیں ہو سکتا، کیونکہ ڈیفالٹ کے خطرات بدستور منڈلا رہے ہیں۔یا پھر یہ تاخیر پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے موزوں ماحول سے مشروط ہے؟ ان سوالات کے جوابات تلاش کرنا ضروری ہے، کیونکہ جب تک یہ عوامل واضح نہیں ہوں گے، حقیقی معنوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری ملک میں نہیں آئے گی۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف