ایک اہم پیش رفت میں، آٹھ ڈیولپمنٹ فنانس انسٹی ٹیوشنز (ڈی ایف آئیز) نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر ہوا اور شمسی توانائی کے آزاد توانائی پیدا کرنے والے اداروں (آئی پی پیز) کے ساتھ بجلی خریداری معاہدوں (پی پی اےز) کو بغیر مشاورت دوبارہ طے کیا گیا تو یہ توانائی کے شعبے کی طویل مدتی ترقی کے لیے نقصان دہ ہوگا، سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے گا اور مستقبل میں درکار نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرے گا۔
حکومت کے مختلف اعلیٰ حکام، بشمول وزیر خزانہ، وزیر توانائی اور وزیرِاعظم کے معاون خصوصی (ایس اے پی ایم ) کو لکھے گئے مشترکہ خط میں، ڈیولپمنٹ فنانس انسٹی ٹیوشنز (ڈی ایف آئیز) نے 10 جنوری 2025 کو انرجی ٹاسک فورس کی جانب سے جاری کردہ مجوزہ شرائط کا حوالہ دیا ہے، جو حکومتِ پاکستان کی جانب سے ہوا اور شمسی توانائی کےآئی پی پیز کے ساتھ بجلی خریداری معاہدوں (پی پی ایز) پر دوبارہ گفت و شنید کے مقصد کے تحت پیش کی گئی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ انرجی ٹاسک فورس نے بعد ازاں ہر آئی پی پی کے ساتھ اجلاس منعقد کیے ہیں تاکہ مجوزہ شرائط پر تبادلہ خیال کیا جا سکے اور ان کے نفاذ پر اتفاق رائے حاصل کیا جاسکے۔
مشترکہ خط کے مطابق متعلقہ حکام کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ڈیولپمنٹ فنانس ادارے بطور قرض دہندہ اور ایکوئٹی سرمایہ کار پاکستان کے بجلی کے شعبے میں ایک طویل مدتی عزم رکھتے ہیں۔ ہم نے گزشتہ 25 سال کے دوران اس شعبے میں تقریباً 2.7 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، جس کا مقصد بجلی کے شعبے کی ترقی میں مدد فراہم کرنا اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ہے۔
”اگرچہ ہم بجلی کے شعبے کو درپیش موجودہ مشکلات کو مکمل طور پر تسلیم کرتے ہیں اور طویل مدتی ساختی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومتِ پاکستان کے بعض اقدامات کی قدر کرتے ہیں، لیکن ہمارا ماننا ہے کہ بغیر مشاورت پاور پرچیز ایگریمنٹس (پی پی ایز) کی دوبارہ مذاکراتی عمل نہ صرف اس شعبے کی طویل مدتی ترقی کے لیے نقصان دہ ہوگا بلکہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بھی مجروح کرے گا اور مستقبل میں درکار نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرے گا۔“
”ڈی ایف آئیز نے کہا کہ سرمایہ کاروں کا یہ اعتماد پاکستان میں قابل تجدید توانائی کے شعبے میں مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں اہم رہا ہے، اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں، اس حوالے سے مزید بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے کیے گئے معاہدوں کی پاسداری اور اپنے معاہداتی وعدوں کو پورا کرنا کسی بھی ملک میں سرمایہ کاروں کے اعتماد کو مضبوط بنانے کے بنیادی ستون ہیں، اور پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔“
ڈی ایف آئیز کا مؤقف ہے کہ وہ اس بات پر زور دینا چاہتے ہیں کہ ان کے مالیاتی اور سرمایہ کاری معاہدوں کی شرائط کے تحت، وہ آئی پی پیز جن کی انہوں نے مالی معاونت کی ہے، کسی بھی بڑے پروجیکٹ دستاویز، بشمول پاور پرچیز ایگریمنٹ میں کسی بھی قسم کی تبدیلی پر قرض دہندگان کی پیشگی تحریری منظوری کے بغیر اتفاق نہیں کر سکتے۔
ڈی ایف آئیز نے مزید کہا کہ ہمیں امید ہے کہ حکومت پی پی اے کی ازسرنو مذاکراتی پالیسی پر نظرثانی کرے گی اور توانائی کے شعبے کے ساختی مسائل کے حل کے لیے متبادل طریقے تلاش کرے گی۔ ہم پاکستان کے توانائی شعبے کی حمایت کے لیے پُرعزم ہیں اور اس حوالے سے حکومت کے ساتھ کام کرنے کے منتظر ہیں۔
جن ڈی ایف آئیز کے نمائندوں نے مشترکہ خط لکھا ہے ان میں ایشیائی ترقیاتی بینک، برٹش انٹرنیشنل انویسٹمنٹ پی ایل سی، ڈی ای جی ڈوئچے انویسٹی گیشنز اینڈ اینٹوکلنگز جیسیلشفٹ ایم بی ایچ، نیدرلینڈز فینینرز ماتشپیج و انٹوکلنگس ماتشکیپج و انٹوکلنگس لینڈنٹ این وی، آئی ایف سی، اسلامک کارپوریشن فار دی ڈیولپمنٹ آف پرائیویٹ سیکٹر، اسلامک ڈیولپمنٹ بینک اور سوسائٹی ڈی پروموشن ایٹ ڈی ڈی پارٹنرشپ شامل ہیں۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments