اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے جولائی سے اکتوبر 2024 کے دوران مقامی مارکیٹ سے تقریباً 3.8 ارب ڈالر خریدے تاکہ زرمبادلہ ذخائر کو مستحکم کیا جاسکے۔زرمبادلہ مارکیٹ میں مداخلت مرکزی بینک کے مؤثر ترین طریقوں میں شامل ہے جس کے ذریعے ملکی کرنسی کی بیرونی قدر کو برقرار رکھنے یا اس میں استحکام/ردوبدل لانے کا کام کیا جاتا ہے۔

اگر کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) درآمدی مہنگائی سے شدید متاثر ہو تو ملکی کرنسی کی بیرونی قدر کو برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان کے معاملے میں یہ خاص طور پر اہم ہے، کیونکہ معیشت کا انحصار بڑی حد تک درآمدی ایندھن اور خوردنی تیل پر ہے۔

جنوری 2024 میں سی پی آئی 28.3 فیصد سے کم ہو کر جون میں 12.6 فیصد اور رواں سال جنوری میں 2.4 فیصد تک آ گیا، جس کی بڑی وجہ روپے کی بیرونی قدر میں استحکام ہے۔

یہ استحکام یقینی طور پر خطرے میں پڑسکتا ہے اگر درآمدی اشیا کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ ہو، جیسا کہ اس وقت روس-یوکرین اور مشرق وسطیٰ کے تنازعات کے باعث تیل کی قیمتوں میں بڑھوتری دیکھنے میں آرہی ہے۔

اگر زرمبادلہ ذخائر 3 ماہ کی درآمدات سے کم ہوں تو کرنسی کو مستحکم کرنے کیلئے پالیسی اقدامات کیے جاتے ہیں، جیسا کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں دیکھا جارہا ہے۔25 اکتوبر 2024 کو زرمبادلہ ذخائر 11.156 ارب ڈالر تھے جو اقتصادی ماہرین کے مطابق صرف ڈھائی ماہ کی درآمدات کیلئے کافی تھے جب کہ عالمی معیار کے مطابق یہ کم از کم 3 ماہ کیلئے ہونا چاہیے۔

اگرچہ اسٹیٹ بینک کی خریداری کے اعدادوشمار اکتوبر 2024 تک دستیاب ہیں تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ 25 جنوری 2025 تک زرمبادلہ ذخائر معمولی اضافے کے ساتھ 11.372 ارب ڈالر تک پہنچے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر سے مقامی طور پر قرض لینے کی پالیسی میں کسی نمایاں کمی کا امکان نہیں ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے حال ہی میں درج ذیل اعداد و شمار پیش کیے: موجودہ مالی سال کے لیے مجموعی بیرونی قرضوں کی ضرورت 26 ارب ڈالر ہے، تین دوست ممالک کی جانب سے ایک سال کے لیے رول اوور کی گئی رقم 16 ارب ڈالر ہے جبکہ باقی قرض یا تو پہلے ہی ادا کیا جا چکا ہے یا موجودہ ذخائر سے باآسانی ادا کیے جانے کی توقع ہے۔

اس میں غیرملکی کمرشل بینکوں سے حاصل کیے جانے والے 4 ارب ڈالر تک کے متوقع قرضے شامل نہیں، جنہیں اقتصادی امور ڈویژن نے بڑھا کر 4.5 ارب ڈالر کردیا ہے۔

ڈیووس سمٹ میں وزیرخزانہ کے بیان کے مطابق، حکومت نے دو مشرق وسطیٰ کے بینکوں سے ایک ارب ڈالر کا انتظام کیا ہے تاہم اس کے باوجود مالی خلا برقرار ہے جو اسٹیٹ بینک کی جانب سے زرمبادلہ کی خریداری کی ضرورت کو واضح کرتا ہے۔

یہ نوٹ کرنا اہم ہے کہ اگر برآمدات کو فروغ دینا مقصود ہو تو کرنسی کی قدر میں کمی ایک ترجیحی پالیسی آپشن ہوسکتا ہے کیونکہ اس سے برآمدات سستی ہوجاتی ہیں اور خصوصاً دیگر مقابل ممالک کے مقابلے میں غیر ملکی خریداروں کیلئے زیادہ پرکشش بن جاتی ہیں۔

پاکستان کیلئے روپے اور ڈالر کی برابری خاص اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ اس سے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے بوجھ کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ رواں سال کیلئے اس کا تخمینہ 1.038 کھرب روپے لگایا گیا ہے جس میں ان غیر ملکی کمپنیوں کے منافع کی منتقلی شامل نہیں جو معاہدے کے تحت اس کی مجاز ہیں۔ حالیہ مہینوں میں یہ مسئلہ خاص طور پر چینی آزاد بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں (آپی پیز) کے لیے شدید تشویش کا باعث رہا ہے۔

اپنے دفاع میں اسٹیٹ بینک یہ مؤقف اختیار کرسکتا ہے کہ رواں سال ڈالر کی خریداری گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں کافی کم رہی ہے۔ تاہم، یہ جواز اس حقیقت کو نظرانداز کرتا ہے کہ جون 2023 تک آئی ایم ایف نے اُس وقت کے وزیر خزانہ کی پالیسی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے جاری پروگرام معطل کردیا تھا۔ اس پالیسی کے تحت روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں کرنسی کی متعدد شرحیں وجود میں آئیں اور سرکاری ذرائع سے ترسیلات زر میں تقریباً 4 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی کیونکہ حوالہ ہنڈی کا نظام دوبارہ فعال ہو گیا تھا— ایک ایسی پالیسی جس میں اسٹیٹ بینک بھی اُس وقت شریک تھا۔

آج صورتحال مختلف ہے، کیونکہ آئی ایم ایف دوبارہ پروگرام کا حصہ بن چکا ہے۔ اس لیے اصل توجہ اس حقیقت پر ہونی چاہیے کہ ڈالر کی خریداری معیشت کی نازک حالت کی عکاسی کرتی ہے، نہ کہ کابینہ ارکان کے دعوے کے مطابق کسی اقتصادی بحالی کا ثبوت ہے۔

اسٹیٹ بینک نے جاری ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی (ای ایف ایف) پروگرام کے تحت تسلیم کیا کہ محدود زرمبادلہ ذخائر بیرونی استحکام کے لیے ایک بنیادی رکاوٹ ہیں“ اور عہد کیا کہ وہ “پروگرام کے نیٹ انٹرنیشنل ریزروز (این آئی آر) اہداف کے مطابق مضبوط زرمبادلہ ذخائر بنانے کی اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔

لہٰذا، اگرچہ ایسی خریداریوں کی منظوری تقریباً یقینی طور پر آئی ایم ایف سے حاصل کی گئی ہوگی، لیکن بہتر ہوتا کہ حکومت اپنی خریداریوں اور قرضوں کو صرف واجب الادا اصل رقم اور سود کی ادائیگی تک محدود رکھتی اور بیرونی قرضوں کو اپنے جاری اخراجات پورے کرنے کے لیے استعمال کرنے سے گریز کرتی۔ بدقسمتی سے، یہ روش آج بھی برقرار ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف